Maktaba Wahhabi

311 - 503
’’صدقات صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان کے وصول کرنے والوں کے لیے اور ان کے لیے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھوڑنے میں، قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے، فرض ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔‘‘ ۴۔مصارف فے: اس بارے قرآن مجید میں وارد ہے: ﴿مَآاَفَآئَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرَی فَلِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ﴾ (الحشر: ۷) ’’بستیوں والوں کا جو مال اللہ تمہارے لڑے بغیر اپنے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا، قرابت والوں کا، یتیموں، مسکینوں کا اور مسافروں کا۔‘‘ ۵۔مصارف عشور: مسلمانوں سے وصول کردہ عشور نفقات تحویلیہ کے زمرے میں آتے ہیں چونکہ انہیں ان کے حق میں زکوٰۃ سمجھا جاتا ہے، لہٰذا انہیں بھی مصارف زکوٰۃ میں خرچ کیا جاتا ہے۔ ۶۔اجتماعی ضمانت کے اخراجات: دولت امویہ میں اجتماعی ضمانت کے اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا جو کہ عینی صورت میں ہوتے تھے، مثلاً وارد ہے کہ سن ۴۵-۵۳ھ کے درمیانی عرصہ میں حجاز اور عراق کے صوبوں کے فقراء کو ایسے کارڈز جاری کیے جاتے تھے جن پر ان کے ہر فرد کے لیے عینی مدد کی مقدار درج ہوتی تھی۔[1] جن پر بعدازاں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے زمانہ میں نقدی اخراجات کا بھی اندراج کر دیا گیا، نقدی کی صورت میں تعاون کی یہ مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ ضرورت مند مقروض لوگوں کے ذمہ واجب الاداء قرضہ جات ادا کیے جاتے اور ایسے لوگوں کی شادی کے اخراجات برداشت کیے جاتے جنہیں اس کی ضرورت ہوتی مگر وہ اس کے اخراجات ادا کرنے سے قاصر ہوتے۔[2] عینی اخراجات کی مثال یہ ہے کہ ہر نابینا شخص کے لیے ایک قائد اور ہر پانچ یتامٰی کے لیے ایک خادم رکھنے کا حکم جاری کیا گیا۔[3]جن کے اخراجات حکومت برداشت کرتی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اجتماعی کفالت کے اخراجات غیر مسلموں کو بھی ادا کیے جاتے تھے۔[4] آگے چل کر اس نظام کو مزید وسعت دی گئی اور (۱۲۰-۱۲۶ھ) کے عرصہ کے دوران عراق میں اس کا سلسلہ سالانہ عمومی اخراجات تک بڑھا دیا گیا اور اس سلسلے میں دس ہزار درہم نوجوانوں (مرد و زن) کے گھروں کی حفاظت کرنے کے لیے مخصوص کیے گئے تھے۔[5]
Flag Counter