Maktaba Wahhabi

231 - 503
کے نتیجے میں اسلامی معاشرہ اس قدر خوش حال ہو گیا جس کی قبل ازیں کوئی نظیر نہیں ملتی تھی اور جس کی وجہ سے اخلاقیات کے پیمانے بھی تبدیل ہو گئے تھے۔[1] اور پھر آہستہ آہستہ بعض مفاہیم میں بھی تبدیلی آنا شروع ہو گئی جیسا کہ اہل حل و عقد کا مفہوم۔ اب اس سے مراد اہل بدر یا مدینہ منورہ میں سابقین الی الاسلام کی جماعت مراد نہیں لی جاتی تھی جن کی مرور زمانہ کے ساتھ تعداد کم ہو گئی تھی۔ تاثیر اور فاعلیت کے میدان میں مختلف شہروں کے زعماء کا ظہور ہو گیا تھا جن میں زعماء شام بھی شامل تھے، اگر ہم احداث تاریخ سے فیصلہ چاہیں تو وہ اس بات کو مؤکد کرتے ہیں کہ مختلف شہروں کے لوگ سیاسی فیصلے کرنے کی طاقت رکھتے تھے جبکہ اہل مدینہ اس سے بے بس ہو کر رہ گئے تھے تاریخی واقعات کے مطالعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل شام کو اطاعت، اجتماعی وحدت، حکومتی نظام کی پاس داری، ادارتی اسالیب اور تہذیبی طور طریقوں سے وافر حصہ میسر آیا تھا، اہل شام اپنی انہی خوبیوں کی وجہ سے عراق اور دیگر تمام اسلامی شہروں پر اقتدار قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی، انہوں نے اپنی انہی اہلیتوں کی بنیاد پر نوے سال سے زائد عرصہ تک اپنا اقتدار قائم رکھا جو کہ دولت امویہ کی کل عمر ہے۔ اس سے اس بات کی تاکید ہوتی ہے کہ شامی قائدین سیاسی امر واقع کے اعتبار سے اسلامی معاشرہ میں اہل حل و عقد قرار پائے۔ جنہیں خلیفہ منتخب کرنے کی قدرت بھی حاصل تھی اور وہ اس انتخاب سے دوسرے شہروں کو مطمئن بھی کر سکتے تھے، وہ ایسا صلح و صفائی سے کرتے یا سینہ زوری سے، اور یہ وہ معاشرہ تھا جس پر مختلف گروہ حکومت کرتے تھے اور ان کی اپنی اپنی رغبتیں اور ترجیحات تھیں۔[2] ۱۔ اہل حل و عقد کے مفہوم و معنی کے بارے میں فقہاء کی آراء: اہل حل و عقد کے مفہوم و معنی کے بارے میں علمائے و اسلام کے متعدد اقوال ہیں۔ جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں: الف: اولو الامر:… یہ شرعی اصطلاح ہے، جس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح آتا ہے: ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ﴾ (النساء: ۵۹) ’’اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اور اپنے میں سے اولوا الامر کی۔‘‘ اولوا الامر سے کون لوگ مراد ہیں؟ اس بارے میں علماء کے کئی اقوال ہیں، جن میں سے مشہور اقوال یہ ہیں: ۱۔ امراء و حکام:… اسے امام طبری نے ترجیح دی ہے۔[3] امام نووی فرماتے ہیں: یہ جمہور سلف و خلف کا قول ہے۔[4]
Flag Counter