Maktaba Wahhabi

435 - 503
تھا، ان کے پیش نظر صرف اسلام اور مسلمانوں کا مفاد تھا، البتہ اس قضیہ میں ابو مہاجر کا اجتہاد اقرب الی الصواب تھا۔[1] ۱۔ عقبہ کا قیروان سے محیط تک جہاد: ۵۵ھ میں قیروان کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ کو افریقہ کی ولایت سے معزول کر دیا گیا، بعدازاں ۶۲ھ میں انہیں یہ ولایت دوبارہ تفویض کر دی گئی تو وہ اپنے اس مشہور سفر پر روانہ ہوئے جس میں انہوں نے تیونس میں قیروان سے محیط اطلس تک … ایک ہزار میل سے زیادہ کی مسافت طے کی، انہوں نے قیروان پر زہیر بن قیس بلوی کو اپنا جانشین مقرر کیا اور قیروان کے لیے یہ دعا کی: یا اللہ! اس شہر کو علم و دانش سے معمور کر دے اور اسے اپنے اطاعت گزاروں سے بھر دے، اس شہر کو اپنے دین کے لیے باعث عزت اور کفار کے لیے باعث ذلت بنا، اور اسے زمین کے جابروں سے محفوظ فرما۔ عقبہ اپنے ان دس ہزار ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہوئے جنہیں وہ شام سے اپنے ساتھ لے کر آئے تھے، ان کے علاوہ قیروان سے بھی بہت سارے لوگ ان کے ساتھ شامل ہو گئے، آپ نے روانگی سے قبل اپنے بیٹوں کو اپنے پاس بلایا اور ان سے فرمایا: میں نے اپنے آپ کو اللہ کے ہاتھ بیچ دیا ہے اور میں کفار کے ساتھ ہمیشہ جہاد کرتا رہوں گا، پھر فرمانے لگے: میرے بیٹو! میں تمہیں تین باتوں کی وصیت کرتا ہوں، انہیں اچھی طرح یاد رکھنا اور انہیں ضائع نہ کرنا، اپنے سینوں کو اشعار سے مت بھرنا اور قرآن کو ترک نہ کرنا، اس لیے کہ قرآن اللہ پر دلالت کرتا ہے، کلام عرب سے وہ کچھ لو جس سے عقل مند انسان راہ پاتا ہے اور جو تمہیں مکارم اخلاق سے آشنا کرے، اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے اس سے باز رہو، میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ کسی بھی حالت میں قرض نہ اٹھانا، اس لیے کہ قرض دن کی ذلت اور رات کا غم ہے۔ قرض لینے سے باز رہو اس سے تمہاری عزت بھی محفوظ رہے گی اور زندگی بھر تمہاری حرمت بھی برقرار رہے گی۔ مغرور لوگوں سے اکتساب علم نہ کرنا، وہ تمہیں اللہ کے دین سے جاہل رکھیں گے اور تمہارے اور اللہ کے درمیان تفریق کر دیں گے۔ دین صرف پرہیز گار اور متقی لوگوں سے اخذ کرنا، تمہاری سلامتی اسی میں ہے جو آدمی محتاط رہتا ہے وہ سلامت رہتا اور نجات پاتا ہے، پھر فرمایا: تم پر اللہ کی سلامتی ہو، میرے خیال میں تم آج کے بعد مجھے نہیں دیکھ سکو گے، پھر فرمایا: میرے اللہ! اپنی رضا کے لیے میری جان کو قبول فرما، جہاد کو میرے لیے رحمت اور اپنے ہاں میری عزت کا گھر بنا۔[2] یوں ابھی عقبہ کے قدم ارض قیروان پر نہیں پڑے تھے کہ انہوں نے بغیر کسی تردّد کے جہاد کے لیے نکلنے کا ارادہ کر لیا۔ وہ جہاد کے ساتھ کس قدر محبت کرتے تھے، اس پر اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے وقت ان کا یہ قول دلالت کرتا ہے: میں نے اپنے آپ کو اللہ کے لیے بیچ دیا ہے اور میں زندگی بھر کفار سے جہاد کرتا رہوں گا۔ انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے لیے بیچ کر بڑی عظیم اور مہنگی قیمت کی وصولی میں اپنے شوق کا اظہار کیا: ﴿اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَ اَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ
Flag Counter