Maktaba Wahhabi

515 - 503
لگے: اللہ سے ڈرو، یقینا جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اسے بچا لے گا اور جو اس سے نہیں ڈرے گا وہ اسے نہیں بچائے گا۔[1] جب ان کا آخری وقت آیا تو کبھی ایک رخسار زمین پر رکھتے اور کبھی دوسرا۔ اس دوران روتے جاتے اور فرماتے: میرے اللہ! تو نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ (النساء: ۴۸) ’’یقینا اللہ یہ گناہ معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ وہ جسے چاہے معاف فرما دے۔‘‘ یا اللہ! مجھے ان لوگوں سے کر دے جنہیں اگر تو چاہے تو معاف کر دے۔[2] اس دن انہوں نے یہ دعا بھی فرمائی: ’’اے اللہ! لغزش و گناہ کو معاف فرما اور اپنے حلم سے اس کے جہل سے درگزر فرما جو تیرے علاوہ کسی سے امید نہیں رکھتا بلاشبہ تو وسیع مغفرت والا ہے اور گناہ گار کے لیے اپنے گناہ سے تیری طرف بھاگنے کے علاوہ اور کوئی جگہ نہیں۔‘‘ اس کے بعد ان کی وفات ہو گئی۔[3] دوسری روایت میں آتا ہے: یا اللہ! میں تجھ سے ملاقات کرنے کو پسند کرتا ہوں تو بھی مجھ سے ملاقات کو پسند فرما۔[4] اللہ معاویہ رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے۔ ۳۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات اور ان کی نماز جنازہ پڑھانے والا: مؤرخ طبری فرماتے ہیں: اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے رجب ۶۰ ہجری میں وفات پائی۔[5] البتہ ان کی وفات کے وقت میں اختلاف ہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صحیح قول کی رُو سے انہوں نے رجب ۶۰ ہجری میں وفات پائی[6] اور ضحاک بن قیس فہری نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، ان کی وفات کے وقت یزید ان کے پاس موجود نہیں تھا۔[7] ضحاک بن قیس منبر پر بیٹھ گئے اس وقت معاویہ رضی اللہ عنہ کا کفن ان کے ہاتھوں میں تھا، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا: یقینا معاویہ رضی اللہ عنہ عربوں کی فصیل، مدد اور نصیبہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے سے فتنے کا خاتمہ فرمایا۔ انہیں بندوں کا حکمران بنایا اور ان کی وجہ سے ملکوں کو فتح کرایا، آگاہ رہو کہ اب وہ فوت ہو چکے ہیں اور یہ ان کا کفن ہے اور ہم انہیں اس میں لپیٹنے والے ہیں اور انہیں ان کی قبر میں اتارنے والے ہیں اور ان کے اور ان کے عمل کے درمیان سے الگ ہونے والے ہیں، پھر قیامت تک برزخ کا عالم ہو گا، جو شخص انہیں دیکھنا چاہتا ہے وہ نماز ظہر کے وقت حاضر ہو جائے، پھر اس نے یزید کے پاس ایلچی بھیجا۔ مؤرخین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ یزید اپنے باپ کی وفات کے وقت موجود تھا یا نہیں؟ اس بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ یزید اپنے باپ کی وفات کے بعد واپس آیا۔[8] جب یزید کو اپنے باپ کی وفات کی خبر ملی تو اس نے یہ اشعار پڑھے:
Flag Counter