Maktaba Wahhabi

157 - 503
۱۳۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا صفین سے واپسی کے بعد قبروں کے پاس سے گزرنا: جب امیرالمومنین صفین سے واپس لوٹتے وقت قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: وحشت ناک اور غیر آباد گھروں کے رہنے والو! تم پر سلام ہو جو اہل ایمان اور اہل اسلام مردوں اور عورتوں میں سے ہیں۔ تم ہم سے بہت پہلے چلے آئے جبکہ ہم تمہارے پیچھے آنے والے اور عنقریب تمہیں ملنے والے ہیں، یا اللہ! ہمیں بھی معاف فرما اور انہیں بھی معاف فرما، اور اپنے لطف و کرم سے ہم سے بھی درگزر فرما اور ان سے بھی درگزر فرما۔ سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے زمین کو زندوں اور مردوں کو سمیٹنے والی بنایا، سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے تمہیں پیدا کیا، وہ زمین پر ہی تمہیں اکٹھا کرے گا اور اسی میں سے تمہیں اٹھائے گا، اس شخص کو مبارک ہو جس نے آخرت کو یاد کیا، حساب کے لیے تیاری کی اور قناعت سے نوازا گیا۔[1] ۱۴۔ جنگ جاری رکھنے پر قاتلین عثمان کا اصرار: قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اس بات کے شدت کے ساتھ خواہش مند تھے کہ یہ جنگ جاری رہے یہاں تک کہ دونوں طرف کے لوگ ختم ہو جائیں اور ان کی طاقت کمزور پڑ جائے اور اس طرح وہ قصاص اور سزا سے بچ جائیں۔ جب انہوں نے اہل شام کو نیزوں پر قرآن بلند کر کے آگے بڑھتے اور علی رضی اللہ عنہ کو ان کی طرف سے صلح کی پیش کش کو قبول کرتے ہوئے مسلمانوں کے خون بچانے کے لیے جنگ بند کرنے پر آمادہ دیکھا تو انہوں نے انہیں اس سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کی مگر جب وہ اس میں ناکام ہوئے تو ’’ الحکم للّٰہ‘‘ کا نعرہ لگا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کر دی اور پھر طرفین سے الگ ہو کر بیٹھ گئے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے مؤرخین نے اس مرحلہ پر ان کے کردار کو اپنی توجہ کا مرکز نہ بنایا، حالانکہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے، نہ تو انہوں نے ان مذاکرات کی ناکامی کے پس پردہ امور کی نشاندہی کی جو کئی مہینوں تک جاری رہے اور نہ اس کردار کی پردہ دری کی جو جنگ صفین میں شامل ہونے والے ان حامیان علی رضی اللہ عنہ نے ادا کیا تاکہ طرفین میں جاری صلح کی کوششوں کو ناکام بنا دیا جائے۔ اس لیے کہ اگر علی رضی اللہ عنہ کی معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح ہو جاتی تو ان کی جانیں بچ نہ پاتیں، یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ جن مؤرخین نے جنگِ جمل کے فتنہ کے اسباب کی کھوج لگانے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر ڈالیں وہ معرکہ صفین میں ایسا کرنے سے کیوں قاصر رہے۔[2] ۱۵۔ سیّدناعلی رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو سب و شتم کرنے اور اہل شام کو لعن طعن کرنے سے منع کرتے: مروی ہے کہ جب امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو یہ خبر ملی کہ ان کے دو ساتھی معاویہ رضی اللہ عنہ کو سب و شتم کرتے اور اہل شام کو لعن طعن کرتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ وہ دونوں آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: امیر المومنین! کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم حق پر ہیں اور وہ باطل پر؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، مجھے
Flag Counter