Maktaba Wahhabi

193 - 503
پہلی بحث: بیعت معاویہ رضی اللہ عنہ ،ان کی اہم صفات اور علماء کی طرف سے ان کی تعریف (۱)… بیعت معاویہ رضی اللہ عنہ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت سے دستبرداری کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے منصب خلافت سنبھالنے کے تمام عوامل مکمل اور کل اسباب فراہم ہو گئے، ۴۱ھ میں امیر المومنین کے طور پر ان سے بیعت کی گئی اور اس سال کو عام الجماعۃ کے نام سے موسوم کیا گیا[1] اور پھر وہ امت کے ذہن میں اسی نام کے ساتھ محفوظ ہو گیا، یہ واقعہ امت کے قابل فخر کارناموں میں شمار ہوتا ہے جس پر وہ آج تک نازاں و فرحاں ہے۔ اس سال معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت پر امت کا اتفاق ہوا اور اس نے انہیں اپنے امیر کے طور سے پسند کر لیا، اس ہمہ گیر وحدت و یگانگت پر درد دل رکھنے والے مسلمانوں کو دلی خوشی ہوئی۔ امت اسلامیہ پر اولاً تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا اور پھر اس عظیم اصلاحی پروگرام کے منصوبہ ساز سیّد کبیر حضرت حسن بن علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہما کا یہ احسان عظیم تھا۔ عام الجماعۃ دلیل نبوت بھی ہے اور حسن رضی اللہ عنہ کے فضائل میں سے ایک کھلی اور روشن فضیلت بھی۔ عقاد نے اپنے جس قول میں ان تمام مورخین کو گمراہ اور جاہل بتایا ہے جنہوں نے اس سال کو عام الجماعۃ کے نام سے موسوم کیا تو ان کا یہ قول غیر صحیح فہم کا نتیجہ ہے، لہٰذا ناقابل التفات ہے۔[2] عقاد یہ غلط فیصلہ کرنے والا پہلا شخص نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے اکثر شیعہ مورخین بھی یہ بات کہہ چکے ہیں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے یہی فخر کافی ہے کہ ان کے زمانے میں تمام بقید حیات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے بیعت کی، معاویہ رضی اللہ عنہ پر امت کا اجماع ہوا اور علماء صحابہ و تابعین نے ان سے بیعت کی، ان کی خلافت کو شرعی قرار دیا، ان کی امامت کو پسند کیا۔ ان کے نزدیک معاویہ رضی اللہ عنہ ہی وہ بہترین فرد تھے جو مسلمانوں کے معاملات کو سرانجام دینے اور اس مرحلہ میں ان کا حق ادا کرنے کی صلاحیت سے بہرہ مند تھے۔ اوزاعی سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ خلافت معاویہ کا دور متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پایا، مثلاً سعد، اسامہ، جابر، ابن عمر، زید بن ثابت، مسلمہ بن مخلد، ابو سعید خدری، رافع بن خدیج، ابو امامہ، انس بن مالک اور متعدد دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم۔ یہ سب لوگ ہدایت کے چراغ اور علم کے ظروف تھے۔ جنہوں نے نزول قرآن کا مشاہدہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تفسیر اخذ کی۔ اس دور کو پانے والے تابعین میں سے مسور بن مخرمہ، عبدالرحمن بن الاسود بن عبدیغوث، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن محیریز سرفہرست ہیں۔رحمہم اللہ[3]
Flag Counter