Maktaba Wahhabi

220 - 503
۱۶۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اس امت کے افضل ترین بادشاہ ہیں، اس لیے کہ ان سے قبل کے خلفاء اربعہ خلفاء نبوت تھے، جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں اور ان کی بادشاہت رحمت تھی۔[1] مزید فرماتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ان سے بہتر کوئی بادشاہ نہیں تھا۔[2] ابن تیمیہ رحمہ اللہ ذکر کرتے ہیں کہ جب اعمش کے سامنے امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ، کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: اگر تم معاویہ رضی اللہ عنہ کو پا لیتے تو پھر کیا ہوتا؟ انہوں نے کہا: ان کے حلم کے بارے میں؟ فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم! ان کے عدل کے بارے میں۔ ۱۷۔ امام ذہبی رحمہ اللہ: امام ذہبی معاویہ رحمہ اللہ کو امیر المومنین اور شاہ اسلام[3] بتاتے ہیں، مزید فرماتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار ان بہترین بادشاہوں میں ہوتا ہے جن کا عدل ان کے ظلم پر غالب تھا، مگر وہ کمزوریوں سے مبرا نہیں تھے، اللہ تعالیٰ ان سے درگزر فرمائے۔[4] ان کے لیے یہی بات کافی ہے کہ پہلے عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک صوبے کا گورنر بنایا اور پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے، اور انہوں نے یہ ذمہ داری خوب نبھائی، لوگ ان کی جود و سخا اور حلم و حوصلہ سے ہمیشہ خوش رہے۔ اس شخص نے لوگوں کی سیادت و قیادت کی اور اپنی عقل و فکر، حلم و حوصلہ، وسیع الظرفی اور صائب رائے کو کام میں لاتے ہوئے بڑی خوبی کے ساتھ ایک دنیا کا نظام چلایا۔[5] ۱۸۔ ابن کثیر رحمہ اللہ: ۴۱ھ میں ان کی بیعت پر رعایا کا اجماع ہو گیا۔ آپ جس سال فوت ہوئے اس سال وہ فیصلے کرنے میں آزاد تھے، دشمن کے علاقوں میں جہاد کا سلسلہ قائم تھا، اللہ کا کلمہ سربلند تھا، زمین کے دور دراز علاقوں سے مال غنیمت کی آمد کا سلسلہ جاری تھا مسلمان آرام و راحت کے ساتھ رہ رہے تھے اور ان کی طرف سے عفو و درگزر کا التزام کیا جا رہا تھا۔[6]مزید فرماتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ بڑے حلیم الطبع اور باوقار رئیس اور سردار تھے، منصف مزاج اور بڑی شان و شوکت کے حامل تھے۔[7] انہی کا قول ہے: معاویہ رضی اللہ عنہ عمدہ سیرت و کردار کے مالک، عفو و درگزر کے پیکر اور پردہ پوشی کرنے والے عظیم انسان تھے۔[8] ۱۹۔ ابن خلدون: ابن خلدون فرماتے ہیں: مناسب یہی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت اور اس کے اخبار و واقعات کے ساتھ ملحق کیا جائے، اس لیے کہ وہ عدل و انصاف، فضل و شرف اور حجت میں ان کے ہم پلہ ہیں اور حق تو یہ ہے کہ
Flag Counter