Maktaba Wahhabi

138 - 503
ثالثاً:… جنگ کا آغاز آغاز میں جنگ کی صورت یہ تھی کہ طرفین سے ایک ایک آدمی میدان میں اترتا اور پھر دونوں اپنی اپنی جوانمردی کا مظاہرہ کرتے اور کبھی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں بھی ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہوتیں اور یہ اس خوف کے پیش نظر تھا کہ کہیں مکمل جنگ نہ چھڑ جائے۔ ایک ہفتہ تک یہی صورت حال رہی اس دوران اس قسم کی جنگ کے تقریباً ستر واقعات ہوئے، بعض روایات میں ان کی تعداد نوے بھی بتائی گئی ہے۔[1] آخر محرم کے اختتام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ حکم جاری کر دیا کہ کل بدھ کے دن سے بھرپور جنگ ہو گی اور اس میں سارا لشکر شریک ہو گا، پھر انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی اس سے آگاہ کر دیا۔[2] دونوں طرف کے جنگجو رات بھر جنگی ہتھیاروں کو تیار کرتے رہے اور ان کے قائدین ان میں اسلحہ تقسیم کرتے رہے،[3] اور ساتھ ہی ساتھ مشاورت کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور قائدین کو ان کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔[4] ۱۔ جنگ کا پہلا دن: بدھ کے دن صبح کے وقت دونوں لشکروں نے اپنی صفوں کو منظم کیا اور پھر انہیں بڑی جنگوں کے دستور کے مطابق قلب، میمنہ اور میسرہ میں تقسیم کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی ترتیب اس طرح سے تھی کہ[5] انہوں نے قلب میں خود ذمہ داری سنبھالی، عبداللہ بن عباس کو میسرہ، اشعث بن قیس کو میمنہ اور عمار بن یاسر کو پیادہ فوج پر مامور کیا۔ جبکہ محمد بن حنفیہ اور ہشام بن عتبہ نے جنگی پرچم اور جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ شام کے لشکر کے امیر خود معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما تھے۔ وہ بلند ٹیلے پر موجود زرہ پوش لشکر میں موجود تھے۔ عمرو بن العاص شام کے تمام شہسواروں کی قیادت کر رہے تھے، ذو الکلاع حمیری اہل یمن کے میمنہ اور حبیب بن مسلمہ فہری مصر کے میسرہ پر مامور تھے جبکہ مخارق بن صباح کلاعی نے پرچم اٹھا رکھا تھا،[6] اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد دو بھاری بھرکم اسلامی لشکر ایک دوسرے کے سامنے صف آراء تھے۔ جب بدھ کی رات ایک عرب شاعر کعب بن جعیل تغلبی نے دیکھا کہ لوگ تلواریں، نیزے اور تیر تیز کر رہے ہیں ، تو انہوں نے یہ شعر پڑھے: اصبحت الامۃ فی امر عجیب و الملک مجموع غدا لمن غلب فقلت قولا صادقا غیر کذب ان غدا تہلک اعلام العرب [7]
Flag Counter