Maktaba Wahhabi

215 - 503
ہوئے تو ان سے فرمایا: جب اس لونڈی کو میرے سامنے پیش کیا گیا تو اس وقت یہ بے لباس تھی اور اس کے جسم کے فلاں فلاں حصے پر میری نظر پڑ گئی، لہٰذا میں نے ارادہ کیا کہ اسے یزید کے پاس بھیج دوں۔ اس پر ربیعہ کہنے لگے: امیر المومنین ایسا نہ کریں اس لیے کہ یہ تمہارے لیے مناسب نہیں ہے۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے بہت اچھی رائے دی، پھر آپ نے وہ لونڈی عبداللہ بن مسور فزاری کو ہبہ کر دی۔ یہ سیاہ فام تھے اور سیّدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ نے اس سے فرمایا: اس سے سفید اولاد حاصل کریں۔[1] اس اثر کی تعلیق میں ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی فقہ اور ان کے محتاط رویہ کا نتیجہ ہے اس لیے کہ انہوں نے لونڈی کو شہوت کی نظر سے دیکھا تھا جس کی بنا پر اسے اپنے بیٹے یزید کو ہبہ کرنے میں حرج محسوس کیا اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ﴾ (النساء: ۲۲) ’’اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے آباء نے نکاح کیا ہو۔‘‘ اور پھر ربیعہ بن عمرو جرشی دمشقی نے ان کے اس موقف کی تائید کر دی۔[2] ۶۔ اللہ کے ڈر سے رونا: ایک دفعہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ مرفوع حدیث بیان کی گئی کہ قیامت کے دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے سب سے پہلے جن لوگوں کے ساتھ جہنم کی آگ کو بھڑکایا جائے گا وہ ہیں: دکھلاوا کرنے والا قاری، دکھلاوے کے لیے خرچ کرنے والا اور دکھلاوا کرنے والا مجاہد۔ اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندوں میں فیصلہ کرنے کے لیے ان میں نزول فرمائے گا اس وقت ہر امت نے گھٹنے ٹیک رکھے ہوں گے، سب سے پہلے ان لوگوں کو بلایا جائے گا: قرآن کا عالم، شہید فی سبیل اللہ اور متمول انسان۔ اللہ تعالیٰ عالم و قاری سے فرمائے گا: کیا میں نے تجھے ان چیزوں کا علم نہیں دیا تھا جنہیں میں نے اپنے رسولوں پر نازل کیا؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں میرے پروردگار، اللہ فرمائے گا: تو نے جو کچھ سیکھا اس پر کیا عمل کیا؟ وہ جواب دے گا: میں شب و روز اس پر عمل کیا کرتا تھا۔ اللہ فرمائے گا: تو جھوٹ بولتا ہے اور فرشتے بھی کہیں گے: تو جھوٹ بولتا ہے۔ تیرا مقصد یہ تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں اور یقینا ایسا کہا گیا۔ پھر مال دار شخص کو لایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: کیا میں نے تجھے اتنا زیادہ مال نہیں دیا تھا کہ تو کسی کا محتاج نہ رہا؟ وہ جواب دے گا: میرے پروردگار! ایسا ہی ہوا۔ اللہ فرمائے گا: تو نے میرے عطا کردہ مال کے ساتھ کیا کیا؟ وہ جواب دے گا: میں صلہ رحمی کرتا رہا اور صدقہ و خیرات کرتا رہا۔ اللہ فرمائے گا: تو کذب بیانی سے کام لے رہا ہے۔ فرشتے بھی کہیں گے: تو کذب بیانی سے کام لے رہا ہے، پھر اللہ فرمائے گا: بلکہ تیرا ارادہ یہ تھا کہ لوگ تجھے سخی کہیں اور یقینا ایسا کہا گیا، پھر اس شخص کو لایا جائے گا جسے اللہ کی راہ میں شہید کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: تجھے قتل کیوں کیا گیا؟ وہ
Flag Counter