Maktaba Wahhabi

84 - 503
ہی تقسیم کر دیا جائے گا۔‘‘ عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: معاویہ! اللہ سے ڈریں اور مال غنیمت کو صحیح طور سے خرچ کریں اور کسی شخص کو بھی اس کے حصہ سے زیادہ نہ دیں۔ یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میں اس کی تقسیم کا معاملہ تمہارے سپرد کرتا ہوں اس لیے کہ شام میں تم سے افضل شخص اور کوئی نہیں ہے۔ اسے اس کے حق داروں میں تم تقسیم کرو اور اللہ سے ڈرتے رہنا، چنانچہ اسے حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے جملہ حق داروں میں تقسیم کر دیا۔ اس کے لیے ابودرداء اور ابو امامہ نے ان کی معاونت کی۔[1] حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کا شمار مدرسہ شامیہ کے مؤسسین میں ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں معلم اور قاضی بنا کر شام بھیجا تھا۔ انہوں نے کچھ دیر حمص میں قیام کیا پھر فلسطین منتقل ہو کر منصب قضاء پر فائز ہوئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ آپ فلسطین میں یہ منصب سنبھالنے والے پہلے خوش نصیب تھے اس دوران آپ لوگوں کو قرآن حکیم کی تعلیم بھی دیا کرتے اور زندگی کے آخری ایام تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ آپ نے فلسطین میں ہی وفات پائی۔[2] عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ نے خلافت راشدہ کی علمی، تربیتی اور جہادی سیاست کے نفاذ میں بڑا اہم کردار ادا کیا، آپ کا شمار اہل زہد و تقویٰ میں ہوتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حمص تشریف آوری پر لوگوں سے فرمایا: ’’خبردار! دنیا ایک عارضی سامان ہے اور یقینا آخرت سچا وعدہ ہے، خبردار دنیا کے بھی بیٹے ہیں اور آخرت کے بھی بیٹے ہیں۔ تم آخرت کے بیٹے بنو دنیا کے بیٹے مت بنو۔ اس لیے کہ ہر ماں کے بیٹے اسی کے پیچھے جاتے ہیں۔‘‘[3] ۱۰۔ ابو ذر اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے اختلاف کی حقیقت اور اس بارے عثمان رضی اللہ عنہ کا موقف: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والے انہیں اس لیے ہدف تنقید بناتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو ربذہ جلاوطن کر دیا تھا۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ عبداللہ بن سبا نے شام میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور انہیں زہد و قناعت اختیار کرنے، فقراء کی دلجوئی کرنے اور ضرورت سے زائد مال خرچ کر دینے کی تلقین کی اور پھر وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی عیب گیری کرنے لگا۔ عبادہ رضی اللہ عنہ اسے پکڑ کر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے اور ان سے کہنے لگے: اس شخص کو آپ کے پاس ابوذر نے بھیجا ہے۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابوذر کو شام سے باہر نکال دیا۔[4] احمد امین مصری نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ وہ کسی طرح ابوذر غفاری اور مزدک فارسی کی آراء میں کوئی نہ کوئی مشابہت پیدا کر دے، اس کا کہنا ہے کہ ابن سبا یمن میں مقیم تھا اور اس کی عراق میں بھی آمد و رفت تھی زمانہ قبل از اسلام میں فارسی لوگوں کی کثیر تعداد یمن اور عراق میں آباد تھی، لہٰذا اس بات کا خاصا احتمال ہے کہ ابن سبا نے یہ سوچ عراقی مزدکیت سے اپنائی ہو اور اس سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے اخذ کر لی ہو۔[5]
Flag Counter