Maktaba Wahhabi

155 - 503
چاند کے ساتھ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: تو کس کے ساتھ تھا؟ اس نے کہا: میں چاند کے ساتھ تھا۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ جَعَلْنَا الَّیْلَ وَ النَّہَارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَآ اٰیَۃَ الَّیْلِ وَ جَعَلْنَآ اٰیَۃَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً﴾ (الاسراء: ۱۲) ’’اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا، پھر ہم نے رات کی نشانی کو مٹا دیا اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا۔‘‘ تو یہاں سے چلا جا اور آئندہ کے لیے میرا کوئی کام نہ کرنا۔ راوی کہتا ہے: مجھے یہ خبر ملی ہے کہ یہ شخص معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کے ساتھ شامل ہو کر جنگ صفین میں مارا گیا۔[1] علی رضی اللہ عنہ اپنے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کے مقتولوں کے پاس کھڑے ہو کر کہنے لگے: اللہ تعالیٰ تم سب کی مغفرت فرمائے، اللہ تم سب کی مغفرت فرمائے۔ [2] یزید بن اصم کہتے ہیں: فریقین میں صلح طے پا جانے کے بعد علی رضی اللہ عنہ اپنے مقتولین کے پاس آئے اور کہنے لگے: یہ سب لوگ جنتی ہیں، پھر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقتولین کے پاس جا کر کہنے لگے: یہ بھی جنتی ہیں؛ یہ ذمہ داری مجھ پر اور معاویہ رضی اللہ عنہ پر عائد ہوتی ہے۔[3]علی رضی اللہ عنہ ان مقتولین کے بارے میں فرمایا کرتے تھے: یہ سب مومن ہیں۔[4] آپ جنگ جمل میں کام آنے والوں کے بارے میں بھی یہی کچھ فرمایا کرتے تھے۔[5] ۱۱۔ شاہ روم کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کا موقف: حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہ روم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے زیر تصرف بعض اراضی پر قبضہ کرنے کا پروگرام بنایا اور اس کے لیے وہ ایک بڑا لشکر لے کر بعض بلاد اسلامیہ کے قریب آن پہنچا۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس کے نام یہ خط لکھا: اے ملعون! اللہ کی قسم! اگر تو اپنے اس پروگرام سے باز نہ آیا اور یہاں سے واپس نہ گیا تو میں اور میرے عم زاد مل کر تجھے تیرے تمام شہروں سے نکال باہر کریں گے اور زمین کو اس کی وسعت کے باوجود تجھ پر تنگ کر دیں گے، شاہ روم نے جب یہ خط پڑھا تو وہ ان کی ہیبت سے ڈر کر واپس ہٹ گیا اور پھر ان کے ساتھ صلح کی درخواست کرنے لگا۔[6] یہ اثر اس بات پر دلالت کرتا ہے اگر شام میں دولتِ اسلامیہ کا امن خطرات سے دوچار ہوتا ہے تو معاویہ رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ کا اختلاف لمحہ بھر کے لیے بھی نہیں رہتا اور اگر رومیوں کو اس بات کا علم نہ ہوتا کہ ان کے مخالفین کے یہ اختلافات نسیانِ مطلق کے قابل ہیں، تو وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس دھمکی کو سنجیدگی سے نہ لیتے اور نہ وہ آگے بڑھنے سے ہی باز آتے۔[7]
Flag Counter