Maktaba Wahhabi

302 - 503
تقاضا کرتی ہو۔ مگر یہ اس امر سے مانع نہیں ہے کہ کبھی کبھی بعض ولاۃ و امراء شرعی قواعد و ضوابط سے خروج کے بھی مرتکب ہوا کرتے تھے۔[1]جزیرہ میں آنے والے غلے کے حجم اور کل حکومتی آمدن میں اس کے تناسب کی تحدید کرنا دشوارامر ہے۔ البتہ بعض اشارات جزیہ میں آنے والی اشیاء کے بھاری حجم پر دلالت کرتے ہیں۔ اس دور میں دولت امویہ نے بہت سارے شہروں میں اسلام کی نشر و اشاعت کرنا اور پھر انہیں فتح کر کے وہاں کے ان شہریوں پر جو اسلام قبول کرنے سے انکاری تھے ان پر جزیہ عائد کرنا جیسے حوالہ جات سے دولت امویہ کا عظیم کردار رہا ہے۔[2] ۳۔خراج: حکومت کے ذرائع آمدن کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وضع کردہ نظم سے دولت امویہ نے بھرپور استفادہ کیا، حکومت کے زیادہ تر صوبوں میں اسی نظم کی پیروی کی جاتی تھی بجز چند تبدیلیوں کے جن کا آگے چل کر ذکر آئے گا۔[3] خراج کا ایک خاص مفہوم ہے، اور وہ ہے: ان اراضی کی پیداوار جنہیں مسلمانوں نے بزور بازو فتح کیا اور حکمران نے مسلمانوں کی مصالح کی خاطر اسے ہمیشہ کے لیے وقف کر دیا۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عراق اور شام کی اراضی کے ساتھ کیا تھا۔[4] ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خراج کو اجارہ اور قیمت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، وہ بنفسہ اصل ثابت ہے اسے کسی دوسری چیز پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔[5] دولت امویہ کے لیے خراج بڑی اہمیت کا حامل تھا، بطور مثال عبیداللہ کے زمانے (۵۴-۶۶ھ) میں سواد عراق کے خراج کی آمدن ایک سو پینتیس ملین درہم تھی۔[6] جہاں تک علاقہ جزیرہ اور شام کا تعلق ہے تو ان میں خراج کا نظام معاویہ ابن ابو سفیان رضی اللہ عنہما کے وضع کردہ نظام کے مطابق ہی چلتا رہا۔ جنہوں نے جزیہ اور خراج کی دو صورتوں میں مختلف شہروں پر ٹیکس عائد کر رکھا تھا۔ جس کی تفصیل اس طرح سے ہے: الف: اہل قسرین پر دس لاکھ پچاس ہزار درہم۔ (تقریباً) ب: اردن پر ساٹھ لاکھ درہم تقریباً ج: اور فلسطین پر تقریباً ساٹھ لاکھ درہم۔[7]
Flag Counter