Maktaba Wahhabi

253 - 503
کرتے، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ زہر کی وجہ سے فوت ہوئے تھے تو یہ ان کے لیے شہادت اور باعث عزت و کرامت ہے۔[1] مگر اس کی معاویہ رضی اللہ عنہ یا ان کے بیٹے یزید پر تہمت لگانا نہ تو سند کے اعتبار سے ثابت ہے اور نہ متن کے اعتبار سے۔ جیسا کہ روایات میں وارد ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی جعدہ بنت اشعث کو عز و شرف یا مال و زر کی کوئی ضرورت تھی تاکہ وہ یہ سب کچھ یزید سے حاصل کر سکے اور پھر اس کی بیوی بن جائے۔ کیا جعدہ کے لیے یہ بات کافی نہیں تھی کہ اس کا باپ اشعث بن قیس کندہ قبیلے کا سردار ہے؟ پھر کیا حسن بن علی رضی اللہ عنہما عزت و شرف اور مقام و مرتبہ میں سب لوگوں سے بڑھ کر نہیں تھے؟ ان کی ماں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھیں جبکہ نانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جس سے بڑھ کر کوئی بھی چیز قابل فخر نہیں ہے۔ ان کے باپ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ تھے جو کہ عشرہ مبشرہ میں سے ایک اور چوتھے خلیفہ راشد تھے۔ آخر وہ کون سی چیز تھی جس کے حصول کے لیے جعدہ نے اس قدر سنگین واردات کا ارتکاب کر ڈالا؟[2] میں کہتا ہوں کہ اس وقت بکثرت ایسے لوگ موجود تھے جو وحدت اسلامیہ کے دشمن تھے اور جن کے غیظ و غضب میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی دست برداری کی وجہ سے کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا اور جو شدت کے ساتھ اس بات کو محسوس کر رہے تھے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا وجود مسعود امت اسلامیہ کے امن و استقرار کی ضمانت ہے اور یہ کہ وہ غیر متنازعہ طور سے اس کی الفت و یگانگت کے امام اور اس کی وحدت کے زعیم و قائد ہیں، لہٰذا امت کو دوبارہ اضطرابی کیفیت سے دوچار کرنے اور اس میں دوبارہ فتنہ برپا کرنے کے لیے انہیں راستے سے ہٹانا اور ان کا صفایا کرنا ضروری ہے۔ میری نظر میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دینے کا الزام سب سے پہلے ابن سبا کے پیروکاروں پر عائد ہوتا ہے جن کے تمام مذموم مقاصد کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں ان کی دست برداری سے شدید نقصان پہنچا تھا اور پھر اس کی تہمت ان خوارج کے سر آتی ہے جنہوں نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اورحسن رضی اللہ عنہ کی ران میں نیزہ مارا، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے جنگ نہروان اور دوسرے معرکوں میں اپنے مقتولین کا انتقام لینے کے لیے اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہو۔[3] سادساً:… قاتلین عثمان کے بارے میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا موقف حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ وہ اہل مدینہ، اہل حجاز اور اہل عراق سے کسی بھی شخص سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کریں گے،[4] لہٰذا انہوں نے اسی وقت سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالبہ ترک کر دیا۔[5] اسی طرح اس بات پر بھی اتفاق ہوا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایام خلافت میں جو کچھ
Flag Counter