Maktaba Wahhabi

284 - 503
فلیعطینک ما اراد بقدرۃ فہو اللطیف لما اراد فعالا و دع العباد و شانہم و امورہم بید الالہ یقلب الاحوالا[1] ’’اگر تجھے کوئی ضرورت درپیش ہو تو الہ العالمین سے دعا کر اور نیک اعمال کر۔ وہ جو چاہے گا اپنی قدرت سے تجھے عطا کرے گا، وہ باریک بیں ہے جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ لوگوں کو چھوڑ اور ان کے معاملات کو ترک کر سب کچھ الہ العالمین کے ہاتھ میں ہے وہی احوال کو تبدیل کیا کرتا ہے۔‘‘ ۳۔ تجرباتی علوم: رومی اور ایرانی حکومتوں کے اختتام کے بعد دولت امویہ ان کے علوم کی وارث بنی، چونکہ یہ علوم غیر عربی زبان میں تھے، لہٰذا ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان کا عربی زبان میں ترجمہ کرنا ضروری تھا اور اس کے لیے بڑی محنت کی ضرورت تھی، اموی حکمرانوں نے ان علوم سے بھرپور انداز میں استفادہ کرنے کے لیے متعلقہ ماہرین کی بڑی حوصلہ افزائی کی، اس کارخیر کا آغاز معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد سے ہوا اور جن کے حکم سے بیت الحکمت کا قیام عمل میں آیا، مروانی حکمرانوں کو تو اس بیت الحکمت سے اس حد تک دلچسپی تھی کہ وہ دوران سفر حتیٰ کہ دوران جنگ بھی اس کے بارے میں دریافت کیا کرتے اور اسے مزید ترقی دینے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔[2] بعض مؤرخین بتاتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ذاتی معالج ابن اثال نصرانی نے بعض طبی کتب کو عربی زبان میں منتقل کرنے کے لیے بڑا اہم کردار ادا کیا۔[3] مگر ان علوم کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی حقیقی کوششوں کا آغاز خالد بن یزید نے کیا، اس نے سب سے پہلے طب اور کیمیا کی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ کروانے میں دلچسپی دکھائی، چنانچہ اس کے حکم سے کچھ ایسے یونانی علماء و ماہرین کو یہاں آنے کی دعوت دی گئی جو مصر میں قائم مدرسہ اسکندریہ سے اکتساب کرتے رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ فصیح عربی زبان بولنے کی بھی اہلیت رکھتے تھے۔ خالد بن یزید نے ان سے یونانی اور قبطی زبانوں میں تحریر کردہ بہت سی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ کرنے کی درخواست کی اور پھر انہوں نے اس کام کا آغاز کر دیا۔ تاریخ اسلام میں غیر عربی کتابوں کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی یہ پہلی کوشش تھی۔[4] اسی طرح خالد نے انہیں طب کے موضوع پر جالینوس کی تحریر کردہ کتابوں کا بھی عربی میں ترجمہ کرنے کی درخواست کی اور اس طرح اس نے عالم اسلام میں طبی علوم کی بنیاد رکھ دی، ابن یزید وہ پہلا شخص ہے جس نے مترجمین اور فلاسفہ کو عطیات سے نوازا،
Flag Counter