Maktaba Wahhabi

447 - 503
حکم بن عمرو رضی اللہ عنہ ۵۰ھ میں فوت ہو گئے۔[1] ان کے جانشین جلیل القدر صحابی غالب بن فضالہ لیثی رضی اللہ عنہ بنے، انہوں نے طخارستان کی فتح کے لیے منظم جنگی حملے جاری رکھے مگر وہ تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی قابل ذکر پیش قدمی نہ کر سکے،[2] جس کی وجہ سے زیاد نے انہیں معزول کر کے ان کی جگہ ربیع بن زیاد حارثی (۵۰-۵۳ھ) کو والی مقرر کر دیا۔[3] ربیع بن زیاد نے خراسان پر اپنی ولایت کے عرصے کے دوران بلخ سے جنگ کی مگر وہاں کے لوگوں نے ان کے ساتھ صلح کر لی، بعد ازاں کوہستان سے جنگ کی تو اسے تلوار کے زور پر فتح کر لیا، ۵۳ھ میں چند ماہ کے لیے ان کا بیٹا عبداللہ ان کا جانشیں رہا اور اس کے بعد خلید بن عبداللہ حنفی۔ خلید اپنے اس منصب پر قائم رہا یہاں تک کہ خراسان پر معاویہ رضی اللہ عنہ کا متعین کردہ عامل عبیداللہ بن زیاد (۵۴-۵۵ھ) میں یہاں پہنچ گیا، اس وقت عبیداللہ کی عمر پچیس سال تھی۔[4] ثالثاً:… عبیداللہ بن زیاد عبیداللہ بن زیاد نے مرو پہنچنے کے فوراً بعد چوبیس ہزار آدمیوں پر مشتمل ایک فوجی لشکر کی قیادت کرتے ہوئے نہر جیحون عبور کرنے کے بعد رامیشین، نسف اور بیکندہ کو فتح کر لیا[5] تو ملکہ بخاریٰ نے ترکوں کو کو اپنی مدد کے لیے پکارا۔ وہ ایک بڑے لشکر کے ساتھ اس کی مدد کے لیے آئے، مسلمانوں کی ان سے مڈبھیڑ ہوئی تو شکست سے دوچار ہوئے۔[6] اس پر ملکہ نے ان سے صلح اور امان کا مطالبہ کیا تو وہ تقریباً ایک سال تک اس منصب پر فائز رہا۔[7] رابعًا:… سعید بن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تاریخی مصادر روایت کرتے ہیں کہ سعید بن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تقریباً چار ہزار لوگوں کے ساتھ خراسان پہنچے، ان میں بصرہ اور کوفہ میں موجود عرب قبائل کے مشاہیر بھی شامل تھے، نیز ان میں مالک بن رہب مازنی تمیمی جیسے تخریب کار اور ڈاکو بھی موجود تھے جو اب گزشتہ اعمال بد سے توبہ کر کے رشد و ہدایت کی راہ پر گامزن ہو کر جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔[8] مالک بن رہب ہی کا یہ شعر ہے: الم ترنی بعت الضلالۃ بالہدی و اصبحت فی جیش ابن عفان غازیا ’’کیا تو نے مجھے نہیں دیکھا کہ میں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کو فروخت کر دیا ہے اور میں ابن عفان کے لشکر میں غازی بن گیا ہوں۔‘‘[9]
Flag Counter