Maktaba Wahhabi

256 - 503
حجر بن عدی رضی اللہ عنہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح پر معترض رہے، وہ اس بارے میں انہیں ملامت کرتے ہوئے کہا کرتے تھے: تم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ترک قتال کیا حالانکہ تمہارے ساتھ تمہارے دشمن سے جنگ کرنے کے لیے چالیس ہزار مخلص اور تجربہ کار جنگجو موجود تھے، پھر وہ معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض کرتے ہوئے انہیں ظالم قرار دیا کرتے اور وہ ہمیشہ یہی کچھ کرتے رہے۔ دوسرا مرحلہ:… فعلی معارضہ: اس مرحلہ کا آغاز ۵۱ھ سے ہوا، اس سال ان کے اور والی عراق زیاد بن ابیہ کے تعلقات اچانک کشیدہ ہو گئے جس کے دو اسباب بتائے جاتے ہیں: ۱۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف و توصیف کرتے اور ان کے لیے رحمت ایزدی کی دعائیں کرتے جبکہ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کی مذمت کیا کرتے، اس کے برعکس حجر بن عدی رضی اللہ عنہ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی مدح و ستائش کرتے اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی مذمت کرتے، جس پر مغیرہ، حجر بن عدی کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے، پھر جب مغیرہ فوت ہو گئے اور زیاد بن ابیہ نے ولایت سنبھالی تو وہ بھی عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چل نکلے۔ ادھر سے جو حجر بن عدی رضی اللہ عنہ اٹھے اور انہوں نے بھی ان دونوں کے بارے میں مغیرہ رضی اللہ عنہ کی روش اپنائی جس سے حجر بن عدی رضی اللہ عنہ اور زیاد کے درمیان ٹکراؤ کا آغاز ہوا۔[1] ۲۔ زیاد بن ابیہ طویل خطبہ دیتا اور نماز تاخیر سے پڑھاتا جبکہ حجر اس لیے زیاد کو ہدف تنقید بناتے، جس کی وجہ سے بھی ان دونوں میں ٹکراؤ کا آغاز ہوا۔[2] مگر ان اسباب کو مندرجہ ذیل امور مکدر کرتے ہیں: اہل کوفہ کے ساتھ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی سیاست عفو و کرم اور درگزر پر مبنی تھی نہ کہ دشمنی اور کینہ ابھارنے پر، اس کی دلیل بخاری میں مروی جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اپنی وفات کے دن کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: ’’اللہ وحدہ لا شریک لہ سے تقویٰ اختیار کرو۔ وقار اور سکینت اپنائے رکھو یہاں تک کہ امیر یہاں پہنچ جائے جو کہ ابھی آنے ہی والے ہیں۔‘‘ پھر فرمایا: اپنے موجودہ امیر کے لیے بخشش کی دعا کرو، وہ عفو و درگزر کو پسند کیا کرتے تھے۔[3] پھر فرمایا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میں اسلام پر آپ سے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر یہ شرط عائد کی کہ میں ہر مسلمان کی خیر خواہی کروں گا۔ میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی۔ اس مسجد کے رب کی قسم! یقینا میں تمہارا خیر خواہ ہوں، پھر انہوں نے استغفار کیا اور منبر سے نیچے اتر آئے۔[4]
Flag Counter