Maktaba Wahhabi

257 - 503
کوفہ کو ۴۹ھ میں زیاد کی فرمانروائی میں دیا گیا، اس بارے میں فیل مولیٰ زیاد کہتا ہے: زیاد نے عراق پر پانچ سال تک حکومت کی پھر ۵۳ھ میں اس کی موت واقع ہو گئی۔ یہ اس باب میں وارد صحیح ترین روایت ہے۔ ۴۹ھ میں عراق پر حکومت کے حصول کے بعد والی کوفی زیاد اور حجر بن عدی رضی اللہ عنہ اور ان کے حامیوں کے درمیان ٹکراؤ نہ ہوا، اس لیے کہ اس وقت حسن بن علی رضی اللہ عنہما بقید حیات تھے اور ان کا وجود مسعود صلح کے مخالف ان کے اعوان و انصار کی طرف سے چلائی جانے والی تحریکوں کا سر کچلنے کی ضمانت تھا۔ اس لیے کہ انہوں نے ان پر یہ شرط عائد کی تھی کہ تم ان سے جنگ کرو گے جن سے میں جنگ کروں گا اور ان سے صلح کرو گے جن سے میں صلح کروں گا۔ مگر ۵۱ھ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بعض عراقی قائدین کا موقف تبدیل ہو گیا۔[1] جن میں حجر بن عدی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے جن کا قولی معارضہ فعلی معارضہ میں تبدیل ہو گیا تھا۔ بلاذری شعبی وغیرہ تک اپنی سند سے روایت کرتے ہیں کہ جب ۴۹ھ میں زیاد کوفہ آیا تو اس نے حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کو خبردار کرتے ہوئے انہیں اپنی روش تبدیل کرنے کو کہا اور بصورت دیگر ان کے خلاف سخت کارروائی کی دھمکی دی۔ جب وہ اپنے گھر پہنچے تو روافض ان کے پاس جمع ہو کر کہنے لگے: تم ہمارے شیخ ہو اور سب لوگوں سے بڑھ کر اس امر کا انکار کرنے کا حق رکھتے ہو۔[2] پھر جب زیاد کو کسی کام سے بصرہ جانے کی ضرورت پیش آئی تو اس نے نماز اور جنگ کے لیے عمرو بن حریث اور خراج کے لیے اپنے مولیٰ مہران کو اپنا قائم مقام بنایا اور عمال کو عمرو بن حریث کے ساتھ خط و کتابت کرنے کی تلقین کی … عمرو نے زیاد کو خط لکھا کہ اگر تمہیں کوفہ میں کوئی دلچسپی ہے تو جلدی واپس آئیں اس لیے کہ میں حجر رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں کچھ کرنے سے قاصر ہوں، وہ فوراً کوفہ واپس آیا اور عدی بن حاتم طائی اور جریر بن عبداللہ بجلی وغیرہم سے کہا کہ اس شیخ کو سمجھائیں مجھے ڈر ہے کہ وہ ہمیں کوئی ایسا کام کرنے کے لیے مجبور کرے گا جو ہم کیا نہیں کرتے۔ وہ لوگ اس کے پاس گئے اور اس سے بات کرنا چاہی مگر انہوں نے اس وفد کے کسی فرد سے کوئی بات نہ کی۔ وہ لوگ زیاد کے پاس واپس آئے تو اس نے مذاکرات کے بارے میں ان سے آگاہی چاہی۔ اس پر عدی رضی اللہ عنہ گویا ہوئے: امیر محترم! وہ ایک بوڑھا آدمی ہے آپ اس کے بارے میں اپنا عہد و پیمان نبھائیں۔ اس پر زیاد نے جواب دیا: پھر تو میں ابوسفیان کا نہ ہوا۔ پھر اس نے ان کے پاس پولیس کی نفری بھیجی تو اس کی بھی مزاحمت کی گئی۔[3] دوسری روایت میں آتا ہے کہ جب ۴۹ھ میں زیاد امیر بن کر کوفہ آیا تو اس نے حجر رضی اللہ عنہ کا بڑا اکرام کیا اور انہیں اپنے سے قریب کیا، پھر جب اس نے بصرہ جانے کا ارادہ کیا تو انہیں اپنے پاس بلا کر کہنے لگا: حجر! میں نے تمہارے ساتھ جو سلوک کیا وہ تمہارے سامنے ہے۔ میرا بصرہ جانے کا ارادہ ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی میرے ساتھ چلیں، میری عدم موجودگی میں تمہارے یہاں رہنے کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ مجھے تمہاری طرف سے کوئی ایسی خبر ملے جس سے مجھے دلی طور سے ٹھیس پہنچے اگر تم میرے ساتھ رہو گے تو پھر اس کا کوئی امکان نہیں ہو گا۔ میں
Flag Counter