Maktaba Wahhabi

156 - 503
۱۲۔ جنگ صفین کے حوالہ سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک بے سروپا واقعہ: نصر بن مزاحم کہتا ہے: اہل عراق نے حملہ کیا تو اہل شام ان کے مقابلہ پر آئے اور بڑی دلجمعی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ جب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے حملہ کیا تو ان کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ آن کھڑے ہوئے اور انہیں نیزہ مار کر گرا لیا جس سے ان کی شرم گاہ ننگی ہو گئی جس پر علی رضی اللہ عنہ واپس لوٹ گئے۔ لوگ کہنے لگے: امیر المومنین! آپ نے اسے ایسے ہی چھوڑ دیا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ وہ آدمی کون ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ہیں، ان کی شرم گاہ کھل گئی تو میں نے منہ دوسری طرف کر لیا۔[1] اس واقعہ کو ابن الکلبی نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔ جیسا کہ سہیلی نے روض الانف میں اس کا ذکر کیا ہے۔[2] مگر یہ واقعہ محض کذب و افتراء اور سراسر تہمت ہے۔ اس کی تردید مندرجہ ذیل حقائق سے ہوتی ہے: پہلی روایت کا راوی نصر بن مزاحم کوفی ہے جو کہ بڑا متعصب رافضی ہے۔ یہ ایک کذاب راوی ہے اور صحابہ کرام پر افتراء پردازی اس کا مشغلہ رہا ہے، اس کے بارے میں ذہبی فرماتے ہیں: نصر بن مزاحم کوئی متعصب رافضی ہے اور اس کی روایت کو قبول نہیں کیا جاتا۔ ابو خیثمہ نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔[3] ابن حجر نے اس کے بارے میں عجلی کا یہ قول نقل کیا: وہ غالی قسم کا رافضی تھا … وہ نہ تو ثقہ ہے اور نہ قابل اعتمادہی۔[4] جہاں تک کلبی کا تعلق ہے، تو اس کے غالی رافضی ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے کون اخذ و بیان کرتا ہے؟ میرا نہیں خیال کہ کوئی ایک شخص بھی اس سے بیان کرتا ہو۔ جبکہ دارقطنی نے اسے متروک قرار دیا ہے۔[5] ان دونوں رافضیوں کی سند سے یہ قصہ جگہ جگہ پھیل گیا اور ان کے بعد کے شیعہ اور بعض سنی مورخین نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔[6] ہم اس قصہ کو رافضیوں کے اکاذیب اور اصحاب پیغمبر پر افتراء ات کے نمونوں میں شمار کرتے ہیں۔ رافضی مؤرخین میں سے دشمنان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خود تراشیدہ بے شمار نقائص و عیوب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب کر دئیے اور پھر انہیں حکایات و واقعات کا رنگ دے دیا تاکہ انہیں مسلمانوں میں آسانی سے پھیلایا جا سکے۔ جس سے مقصود ان عظیم ہستیوں کی سیرت کو داغ دار کرنا اور ان کے مقام و مرتبہ کو گھٹانا تھا، جبکہ اہل سنت غفلت کی نیند سو رہے تھے۔ جب وہ بہت بعد میں تاریخ اسلامی کی روایات کی تحقیق کے میدان میں اترے تو اس وقت تک ان خرافات و روایات کو قصہ گو لوگوں میں بڑی پذیرائی مل چکی تھی اور ان میں سے زیادہ تر کو اہل سنت کے مورخین کے نزدیک مسلّمات کی حیثیت دی جا چکی تھی۔[7]
Flag Counter