Maktaba Wahhabi

407 - 503
لگے، انہوں نے اسلامی بیزنطی سرحدی علاقوں میں واقع اہم پناہ گاہوں پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لیے سمیاط اور ملطیہ پر قبضہ کر لیا، علاوہ ازیں مرعش اور حدث جیسے مزید قلعے تعمیر کیے اور پھر بڑی اہمیت کے حامل زبطرہ قلعہ پر بھی قبضہ کر لیااور اسے نئے سرے سے مستحکم بنایا،[1] معاویہ رضی اللہ عنہ نے جہادی تحریک کو جاری رکھنے اور مسلم سپاہ کی عملی تربیت کے لیے سرحدی علاقوں کو میدان جنگ بنائے رکھنے اور اسے دشوار گزار پہاڑی راستوں پر چلنے کا عادی بنانے کے لیے مسلسل جنگ کی طرح ڈالی۔ یہ وہ فوجی نشاطات تھیں جنہیں موسم سرما اور موسم گرما کے غزوات کے نام سے یاد کیا جاتا تھا[2] اور جن کا تذکرہ طبری اور دیگر مورخین بار بار کرتے نظر آتے ہیں۔[3] یہ غازیان اسلامی دشمن کی سرزمین میں گھس کر اس کے حفاظتی انتظامات کو درہم برہم کر دیتے، مال غنیمت حاصل کرتے اور پھر واپس لوٹ آتے، ان کے ان پے درپے حملوں سے دشمن حکومت پر شدید دباؤ پڑتا، اس کے اعصاب کمزور پڑتے اور ان کی طاقت میں ضعف آتا،[4] اس قسم کے مسلسل اور لگاتار حملوں نے ان عظیم اور مشہور مسلمان کمانڈروں کو جنم دیا جنہوں نے فن حرب و ضرب میں بڑا نام کمایا جن میں عبداللہ بن کرز بجلی، یزید بن شجرہ رہاوی، مالک بن ہبیرہ سکونی، جنادہ بن امیہ ازدی، سفیان بن عوف، فضالہ بن عبید[5] اور مالک بن عبداللہ خثعمی قابل ذکر ہیں،[6] ان عظیم مسلمان جنگی کمانڈرز نے اعلائے کلمۃاللہ کے لیے بیزنطیوں کے خلاف جہاد میں گرانقدر خدمات سرانجام دیں اور سرفروشی کی سنہری مثالیں قائم کیں۔[7] ثالثاً:… قسطنطنیہ کا پہلا محاصرہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے (۴۷-۴۸ھ) کے دوران قسطنطنیہ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بیزنطی سرزمین پر غارت گری کے لیے کئی لشکر بھیجے،[8] مالک بن ہبیرہ نے موسم سرما بیزنطی علاقے میں گزارا اور ۴۹ھ بمطابق ۶۶۹ء کو قسطنطنیہ شہر کا پہلا اسلامی محاصرہ دیکھنے میں آیا، سلطنت بیزنطیہ کے دو کمانڈروں سیلیوس اور میزیریوس کی اپنے حکمرانوں کے خلاف سرکشی نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو فضالہ بن عبید لیثی اور سفیان بن عوف عامری کی قیادت میں بری اور بحری لشکر قسطنطنیہ بھیجنے پر اکسایا جہاں یزید بن شجرہ زہاوی[9] ان کی مدد کے لیے پہلے سے تیار بیٹھا تھا، اسلامی بحری بیڑے نے خلقیدونیہ پہنچ کر اس میں داخل ہونے کے لیے اس کا محاصرہ کر لیا مگر موسم سرما کی شدت اور اکثر
Flag Counter