معاویہ رضی اللہ عنہ کا پروگرام یہ تھا کہ بیزنطی بحری کشتیوں کا راستہ روکنے اور انہیں بلاد اسلامیہ تک رسائی سے روکنے کے لیے بحر ایجہ اور اس کی گزر گاہوں کو بند کر دیا جائے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے ان پر بحری جنگی حملوں کو مسلسل جاری رکھا جائے، انہوں نے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بڑی اہمیت کے حامل جزیرہ کریت پر قبضہ جمانے سے قبل رودس کو فتح کرنے اور بیزنطی جنگی کشتیوں کو کھلے سمندر میں آنے سے باز رکھنے کے لیے ایک لشکر روانہ کیا مگر اس کے کمانڈر جنادہ بن امیہ ازدی اس پر فتح حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور انہیں صرف اس پر حملہ آور ہونے، کچھ بیزنطیوں کو گرفتار کرنے اور علاقہ میں موجود کچھ جنگی کشتیوں کو قبضہ میں لینے پر ہی گزارا کرنا پڑا، البتہ اس سے معاویہ رضی اللہ عنہ بحر ابیض متوسط کی طرف مسلمانوں کی توجہ مبذول کرانے اور انہیں ان جزائر کی اہمیت سے آگاہ کرنے میں کامیاب رہے ان کے بحری بیڑے نے اس کے چند جزائر پر قبضہ جما لیا اور دیگر جزائر کے لیے خطرے کا الارم بجا دیا اور اپنے بعد آنے والے اموی خلفاء کے لیے راستہ ہموار کر دیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے لیے ایک ایسی بحری قوت کا بندوبست کر دیا تھا جو بحر ابیض متوسط پر بیزنطیوں کی قدیم اجارہ داری کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں تھی، پھر وہ اسے تاریخ کے اس اہم عمل و کردار کے لیے تیار کرنے لگے کہ بیزنطیوں کے دار الحکومت پر ضرب کاری لگاتے ہوئے اس پر قبضہ جما لیا جائے مگر انہیں اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے بیزنطیوں پر بحری برتری حاصل کرنے تک کے عرصہ کا انتظار کرنا پڑا۔[1]
۴۔ ان بحری جنگی تیاریوں سے مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے شام کے شمال میں اسلامی اور بیزنطی حکومتوں کے درمیان سرحدی علاقوں کو مضبوط بنانا ازحد ضروری تھا اور یہ اس لیے کہ مسلمان خلفائے راشدین کے عہدمسعود میں اپنی ابتدائی فتوحات کے دوران شمالی شام کے اطراف تک پہنچ گئے تھے مگر ان کی بیزنطی ایشیا صغریٰ تک طوروس کے پہاڑی سلسلہ نے روک دیا تھا۔ بیزنطیوں نے مسلمانوں سے پسپائی اختیار کرتے وقت حلب اور انطاکیہ کے شمال میں واقع علاقہ جات کو مسلمانوں کی طرف سے ان سے استفادہ کو روکنے کے لیے انہیں تباہ کر دیا اس طرح انہوں نے اسکندرونہ اور طورسوس کے درمیان واقع زیادہ قلعوں کو بھی ناقابل استعمال بنا دیا تھا۔[2] دریں حالات معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان علاقوں کو نئے سرے سے تعمیر کرنے اور انہیں مضبوط بنانے میں خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا اور سب سے پہلے انطاکیہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا جسے ہمیشہ بیزنطیوں کے حملوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، انہوں نے اس کی تعمیر و ترقی کے لیے وہی پالیسی اختیار کی جو انہوں نے شام کے ساحلی شہروں کے لیے اختیار کر رکھی تھی، چنانچہ انہوں نے لوگوں کو انطاکیہ میں آباد کرنے کے لیے انہیں رہائشی زمین دی، ان کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے اس کے لیے مخصوص رباط کو مضبوط بنایا اور بیزنطیوں کی اراضی پر حملوں کے دوران اسکندرونہ اور طورسوس کے درمیان واقع شہروں کو بالتدریج تعمیر اور آباد کرنے
|