Maktaba Wahhabi

254 - 503
بھی ہوا اس کا کسی سے کوئی مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ اصول بڑی اہمیت کا حامل تھا جس کا مقصد ماضی کو بھلا کر تاریخ کا نیا باب رقم کرتے ہوئے حاضر اور مستقبل پر ارتکاز کرنا تھا۔[1] اس کا مطلب یہ ہوا کہ صلح کا یہ معاہدہ فریقین کے تمام لوگوں کے لیے عام معافی کی بنیاد پر ہوا، اور پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی مکمل پاس داری کی اور عملاً کسی کو بھی اس کے کسی گزشتہ گناہ کی سزا نہ دی۔ بڑی حد تک ان کے دور حکومت میں ہر طرف امن کا دور دورہ رہا اور خون محفوظ رہے۔[2] ابن قتیبہ کی عیون الاخبار میں وارد ہے کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ صلح و اتفاق کے سال مدینہ منورہ آئے تو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے جنہیں دیکھ کر عائشہ بنت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے والد کو آوازیں دیتے ہوئے رونے لگی۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میری بھتیجی! لوگوں نے ہماری اطاعت قبول کر لی ہے اور ہم نے انہیں امان دے دی ہے۔ ہم نے ان کے سامنے حلم و برد باری کا اظہار کیا جس کے نیچے قہر و غضب ہے اور انہوں نے ہمارے سامنے تابعداری کا اظہار کیا۔ جس کے نیچے کینہ و بغض ہے۔ ہر انسان کے پاس تلوار ہے اور وہ اپنے ساتھیوں کی جگہ دیکھ رہا ہے۔ اگر ہم ان سے عہد شکنی کریں گے تو یقینا وہ بھی ایسا ہی کریں گے اور ہم نہیں جانتے کہ ایسا کرنا ہمارے خلاف جائے گا یا ہمارے حق میں رہے گا۔ تیرے لیے امیر المومنین کے چچا کی بیٹی بننا عام عورت بننے سے بہتر ہے۔[3] ابن قتیبہ کے اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والی اس صلح کے نتیجے میں جنگ ختم اور خون ریزی بند ہو گئی تھی۔ لوگ پرامن اور پرسکون ماحول میں زندگی گزارنے لگے۔ علاوہ ازیں جنگ جمل، صفین، نہروان اور مصر کی جنگوں نے ان لوگوں کو ختم کر دیا تھا جن کے نام قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی فہرست میں آتے تھے مگر یہ بات یاد رہے کہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کا مسئلہ اغلباً بنو امیہ کے خلفاء اور ان کے نائبین کے ذہنوں میں موجود رہا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے طرف دار رہے۔[4] سابعًا:…حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کا قتل زیادہ تر مصادر حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے قتل کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں، ان میں سے مندرجہ ذیل مصادر سرفہرست ہیں: ابن سعد[5]، خلیفہ بن خیاط[6]، بلاذری[7]، یعقوبی[8]، مسعودی[9]، ابو الفرج الاصفہانی[10]، ابن جوزی [11]، ابن الاثیر [12]، الذہبی [13]اور ابن کثیر [14]۔ حجر بن عدی رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کی خبر میں طبری مشہور رافضی
Flag Counter