Maktaba Wahhabi

89 - 503
اہل و عیال کو اپنے اہل عیال میں شامل کر لیا۔[1] رَضِیَ اللّٰہُ عَلٰی جَمِیْع الصَّحَابَۃِ الْاَبْرَارِ الطَّیِّبِیْنَ الْاَطْہَار۔ ۱۱۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر اقرباء پروری کی تہمت: خلیفۃ المسلمین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر شورش پسندوں اور خارجیوں کی طرف سے یہ تہمت لگائی گئی کہ وہ بیت المال میں ناجائز تصرف کرتے ہوئے اقرباء نوازی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس اتہام کو بنیاد بنا کر اعداء اسلام نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک زور دار پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی اور پھر یہ زہریلا مواد کتب تاریخ میں سرایت کر گیا۔ بعض مفکرین اور مؤرخین نے اسے حقیقت سمجھ کر قبول کر لیا جبکہ حقیقتاً ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور اگر یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے بیت المال سے اپنے قرابت داروں کو کچھ دیا تو اس کا شمار ان کے مناقب میں ہوتا ہے نہ کہ ان کے عیوب میں۔[2] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بہت زیادہ مالدار تھے اور وہ بہت صلہ رحمی کرنے والے شخص تھے۔[3] اور وہ اس حوالے سے ان پر بڑی رقوم خرچ کیا کرتے تھے، وہ یہ سب کچھ اپنی جیب خاص سے کیا کرتے تھے جبکہ شرپسند لوگوں نے اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ وہ یہ پیسہ بیت المال سے خرچ کرتے ہیں۔ ان کے اس دعویٰ کا جواب عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ دیا تھا: لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں اپنے اہل بیت سے محبت کرتا اور انہیں مال و زر سے نوازتا ہوں۔ جہاں تک ان کے ساتھ محبت کا تعلق ہے تو میں نے ان کی محبت میں آکر کسی پر ظلم نہیں کیا بلکہ میں ان کو حقوق کی ادائیگی کے لیے پابند کرتا ہوں۔ رہا انہیں مال و زر سے نوازنا، تو یہ میں انہیں اپنے مالِ خاص سے دیتا ہوں۔ میں مسلمانوں کے مال کو نہ تو اپنے لیے جائز سمجھتا ہوں اور نہ کسی اور کے لیے۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر صدیق اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے ادوار میں بھی لوگوں کو اس وقت بڑے بڑے عطیات دیا کرتا تھا جب مجھے اس کی حرص بھی تھی اور شدید ضرورت بھی۔ اب جبکہ میں عمر کے آخری حصے میں ہوں تو ملحدین نے میرے خلاف یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔[4] عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنا مال اور زمین بنوامیہ میں تقسیم کر دی تھی۔ اس دوران انہوں نے اپنی اولاد کو ان میں سے بعض کے برابر ہی حصہ دیا۔ آپ نے اس کا آغاز ابوالعاص کے بیٹوں سے کیا۔ آل حکم کے مردوں کو دس دس ہزار دئیے، اس طرح انہوں نے آپ سے ایک لاکھ وصول کیے۔ آپ نے اپنے بیٹوں کو بھی اتنا ہی دیا۔ آپ نے بنو العاص، بنو العیص اور بنو حرب پر بھی مال تقسیم کیا۔[5] یہ اور اس قسم کی دیگر نصوص آپ کے اعطاء مال کے حوالے سے بھی بڑی شہرت کی حامل ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کے متعدد فضائل و مناقب کے بارے میں وارد صحیح احادیث ان کے بارے میں مشہور کردہ ان بے اصل اور خرافاتی روایات کی بیخ کنی کے لیے کافی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ عثمان ذوالنورین بیت المال کا زیادہ تر حصہ اپنے قرابت داروں پر خرچ کر دیا کرتے تھے۔[6]
Flag Counter