Maktaba Wahhabi

98 - 503
نہیں ہوتا تھا جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کافی تربیت حاصل کی یا تو اس لیے کہ وہ فتوحات میں مصروف رہے یا پھر صحابہ کرام کی تعداد میں کمی آ جانے کی وجہ سے وہ اس سعادت سے محروم رہے۔ ج:…نئی نسل کا ظہور: اسلامی معاشرہ میں یہ بڑی تبدیلی بھی رونما ہوئی کہ ایک نئی نسل وجود میں آ گئی جس نے معاشرہ میں اپنا مقام بنانا شروع کر دیا اور یہ نسل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نسل سے مختلف تھی۔ یہ نسل جس زمانے میں رہتی تھی وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے مختلف تھا اور اس نسل میں وہ اوصاف نہیں تھے جن سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم متصف تھے۔[1] یہ نسل اپنے سے پہلی اس نسل سے کم تر حیثیت کی حامل تھی جس نے دولت اسلامیہ کی تعمیر و ترقی کا فریضہ اپنے سر لے رکھا تھا۔ مسلمانوں کی پہلی نسل ایمانی قوت اور اسلامی عقائد کے فہم سلیم سے متصف تھی اور وہ کتاب و سنت کے احکام و فرامین کے سامنے اپنے آپ کو جھکا دینے کی پوری پوری استعداد رکھتی تھی جبکہ یہ اوصاف اس نئی نسل میں بہت ہی کم دیکھنے میں آتے ہیں جو وسیع و عریض فتوحات اسلامیہ کے نتیجہ میں معرض وجود میں آئی۔ اس نسل میں ذاتی مفادات کے حصول نے سر اٹھایا اور جنسی و قومی تعصبات ابھرنے لگے۔ ان میں سے بعض تو زمانہ جاہلیت کے بہت سارے طور طریقوں کو اپنائے ہوئے تھے اور وہ صحیح اسلامی عقائدکی بنیاد پر قائم اسلامی تربیت سے اس طرح فیض یاب نہ ہو سکے جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فیض یاب ہوئے تھے۔ یہ لوگ اپنی کثیر تعداد اور نئی فتوحات میں مشغول رہنے کی وجہ سے صحیح اسلامی تربیت سے محروم رہے تھے۔[2] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے بعد کے تمام لوگوں سے بہت ہی کم فتنوں سے دوچار ہوئے۔ پھر زمانہ جس قدر دور نبوت سے دور ہوتا چلا گیا تفرقہ بازی اور اختلافات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔[3] د:…معاشرے کا پروپیگنڈہ سے متاثر ہونا: مخلوط قسم کا یہ غیر آہنگ معاشرہ اضطرابی کیفیت سے دوچار جھوٹے پروپیگنڈہ سے متاثر اور افواہوں پر کان دھرنے کا عادی بن چکا تھا۔[4]یہی وجہ تھی کہ جب لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ایام میں عہد رسالت کے قریب اور ایمان و صلاح کے حوالے سے بڑی عظمت کے حامل اور ان کے ائمہ و حکمران اپنی ذمہ داری کو بانداز احسن نبھانے والے تھے تو ان میں کسی فتنہ نے سر نہیں اٹھایا تھا، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری ایام اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت کے دوران ایسے لوگوں کی کثرت ہو گئی جنہوں نے اگر کچھ نیک کام کیے تو ساتھ ہی ساتھ کئی گناہوں کے مرتکب بھی ہوئے، لہٰذا شہوت پرستی کا دور دورہ ہوا اور ایمان و دین کے ساتھ شکوک و شبہات کی آمیزش ہو گئی۔ یہ بیماری رعایا کے بعض لوگوں ہی میں نہیں بلکہ بعض حکمرانوں میں بھی سرایت کر گئی اور پھر اسی قسم کے لوگوں میں مزید اضافہ ہوتا گیا جس کی وجہ سے شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کا فتنہ کھڑا ہو گیا اور جیسا کہ ہم نے
Flag Counter