Maktaba Wahhabi

97 - 503
ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo﴾ (اٰل عمرٰن: ۱۰۳، ۱۰۴) ’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہونا، اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، تو تم اس کی نعمت کی بدولت بھائی بھائی بن گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، پھر اس نے تم کو اس سے بچا لیا، اللہ ایسے ہی کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تمہارے لیے اپنی آیات کو تاکہ تم ہدایت پر رہو، اور تم میں سے ایک ایسی جماعت ضرور ہونا چاہیے جو خیر کی دعوت دیتی رہے اور برائی سے روکتی رہے اور یہی لوگ ہیں کامیاب ہونے والے۔‘‘ جب مسلمانوں کے لیے دنیوی نعمتوں کی فراوانی ہو گئی اور لوگ فتوحات کے بعد فارغ ہو کر بیٹھ گئے تو وہ اپنے ہی خلیفہ سے ناراض ہو کر ان سے حسد کرنے لگے۔[1] یہیں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آسودگی و خوش حالی نے خلیفۃ المسلمین کے خلاف اٹھنے والی تحریک میں کیا کردار ادا کیا؟ ب:…عہد عثمان رضی اللہ عنہ میں اجتماعی تبدیلی کا مزاج: مسلمان معاشرے میں جو گہری تبدیلیاں رونما ہوئیں وہ ایسی قوت اور خاموشی کے ساتھ روبعمل رہیں کہ اکثر لوگ ان کا احساس کرنے سے قاصر رہے، یہاں تک کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے نصف ثانی کے آغاز میں پرتشدد طریقہ سے کھل کر سامنے آ گئیں اور پھر وہ سرکشی کی اس انتہاء تک جا پہنچیں جس کا نتیجہ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کی شکل میں سامنے آیا۔[2] فتوحات اسلامیہ کی تحریک کے دوران جب دولت اسلامیہ کی حدود میں وسعت پیدا ہوئی تو معاشرے کی ترکیب میں بھی تبدیلی رونما ہوئی اور اس کی بناوٹ میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو گئیں۔ اس لیے کہ دولت اسلامیہ کو جہاں رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے وسعت میسر آئی وہاں اسے اس وسیع و عریض رقبہ پر مختلف اجناس و الوان، لغات و ثقافات، عادات و اطوار، افکار و معتقدات، ادبی و عمرانی فنون اور متعدد دیگر مظاہر سے بھی پالا پڑا جس نے اسلامی معاشرہ کو غیر ہم آہنگ، غیر منظم اور مضطرب کر دیا، اور خاص طور سے موثر کردار کے حامل بڑے بڑے شہروں میں، مثلاً بصرہ، کوفہ، شام، مصر، مدینہ اور مکہ وغیرہ، یہ شہر اپنے محل وقوع اور اہمیت کی وجہ سے فتوحات کے لیے لشکر روانہ کرتے اور ان کی واپسی پر ان کا استقبال کرتے۔ جب موت یا قتل جیسی مختلف وجوہات کی بنا پر ان کی آبادی میں کمی آ گئی تو ان کی جگہ مفتوحہ علاقوں کے لوگوں نے لے لی، مثلاً فارسی، رومی، ترکی، قبطی، کرد اور بربر وغیرہ۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق فارس، نصاریٰ عرب اور یہودیوں سے تھا۔[3] ان شہروں کے زیادہ تر رہائشی عرب قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور عام طور سے شرف صحابیت سے بہرہ مند نہ تھے، یعنی ان لوگوں کا شمار ان خوش قسمت افراد میں
Flag Counter