Maktaba Wahhabi

260 - 503
قتل کر دیا اور بعض کو زندہ رکھا۔ مقتولین میں حجر بن عدی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔[1] حجر رضی اللہ عنہ نے قتل ہونے سے قبل دو رکعت نماز ادا کرنے کی درخواست کی تو انہیں چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے وضو کیا پھر دو رکعت نماز ادا کی اور اسے لمبا کیا۔ ان سے پوچھا گیا: بڑی لمبی نماز پڑھی ہے کیا پریشان ہو گئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے اس سے ہلکی نماز کبھی نہیں پڑھی اور اگر میں گھیرا بھی گیا ہوں تو اپنی آنکھوں سے سونتی ہوئی تلوار، کھلا کفن اور کھودی گئی قبر دیکھ رہا ہوں۔ مقتولین کے ورثاء ان کے لیے کفن لے کر آئے، ان کی قبریں تیار کیں اور انہیں دفنا دیا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب حجر رضی اللہ عنہ کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا تو انہوں نے امیر المومنین کہہ کر انہیں سلام کہا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: کیا میں امیر المومنین ہوں؟ ان کی گردن اڑا دو، انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی اور اپنے گھر والوں سے فرمایا: میری بیڑیاں نہ کھولنا، میرے جسم سے خون صاف نہ کرنا اس لیے کہ میں معاویہ کو راستے پر ملنے والا ہوں۔[2] ابن العربی حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے قتل کے ضمن میں رقمطراز ہیں: … انہوں نے فتنہ کھڑا کرنے کے لیے لوگوں کو اکسایا جس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں ان لوگوں میں شمار کیا جو زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔[3] معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ فیصلہ کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر اعتماد کیا: ’’جب تم لوگ کسی ایک آدمی پر متفق ہو اور اس دوران تمہاری جمعیت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے کوئی شخص تمہارے پاس آئے تو اسے قتل کر دو۔‘‘[4] آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد ہے: ’’کچھ سنگین قسم کے واقعات سامنے آئیں گے، جو شخص میری امت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہے وہ جو کوئی بھی ہو اس کی تلوار سے گردن اڑا دو۔‘‘[5] اس جگہ یہ امر پیش نظر رہے کہ اگر حجر بن عدی رضی اللہ عنہ قومی معارضہ تک محدود رہتے تو معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے قتل کا فیصلہ نہ کرتے۔ اس پر مسور بن مخرمہ و دیگر کے گزشتہ واقعات دلالت کرتے ہیں۔[6] ۲۔ حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے قتل کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف: حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے قتل کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف کے بارے میں وارد روایات مبالغہ آمیزی پر مبنی ہیں۔ بعض روایات بتاتی ہیں کہ جب ۵۱ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کے لیے گئے تو انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو سرزنش کی۔ اسی طرح ان کی طرف سے معاویہ رضی اللہ عنہ کو جنگ کی دھمکی کی روایت بھی مبالغہ پر مبنی ہے۔[7] ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے یہ روایات صحیح نہیں ہیں۔ ان کے حقیقی موقف کی عکاسی
Flag Counter