Maktaba Wahhabi

315 - 503
۶۔دیہات سے شہروں کو ہجرت کرنے والے مزارعین اور دولت امویہ کے درمیان فوجی ٹکراؤ: اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب والی عراق حجاج بن یوسف نے طاقت کے بل بوتے پر انہیں ان کی اراضی میں واپس لوٹانے کی کوشش کی اور ان پر جزیہ عائد کر دیا تو وہ بنو امیہ کے باغی ابن الاشعث کے پرچم تلے جمع ہو گئے۔[1] مگر اس کے ساتھ ساتھ اس مدت کے دوران کچھ ایسے منصوبے بھی وضع کیے گئے جن کی وجہ سے علاقے میں زرعی انحطاط کی شدت میں کمی واقع ہوئی، جن میں قابل ذکر یہ ہیں: ا: زیاد بن ابیہ نے کوفہ کو سیلابی ریلوں سے بچانے کے لیے ایک پل تعمیر کیا جس کی وجہ سے پانی میں غرقاب زمینوں کو نئے سرے سے قابل کاشت بنایا گیا، اس پل کی اہمیت کے پیش نظر اموی دورِ حکومت کے بعض امراء و ولاۃ اس کی نگہداشت کرتے رہے۔[2] ب: زرعی کارکنوں کو ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں منتقل کیے جانے کا عمل جاری کیا گیا جس کا مقصداس علاقہ میں زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا تھا، مثلاً: ٭ زیاد بن ابیہ نے زرعی تجربہ رکھنے والے پچاس ہزار خاندانوں کو کوفہ اور بصرہ سے خراسان اس مقصد کے لیے منتقل کیا تاکہ وہ اسے آباد کر سکیں۔[3] دولت امویہ آب پاشی کے بڑے بڑے ذرائع قائم کرنے کا فریضہ سرانجام دینے سے غافل نہیں تھی اس کے لیے کنویں کھودے گئے ، نہریں نکالی گئیں، سیلابی شگاف بند کیے گئے اور کئی ڈیمز تعمیر کیے گئے۔ رہے مالکان اراضی تو وہ بھی کبھی کبھار ان کاموں میں ان کے ساتھ شراکت کیا کرتے تھے۔ اندرون مملکت آب پاشی کے وسائل قائم کرنا حکمرانوں ہی کی ذمہ داری تھی[4] اور وہ اس سے عہدہ برآ بھی ہوئے۔ اموی حکمرانوں نے امکانی حد تک اراضی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے زرعی اراضی کے رقبہ میں اضافہ کیا، ان کی اصلاح کی گئی، پانی سٹور کیا گیا اور انہیں سیراب کرنے کے وسائل مہیا کیے گئے۔[5] یہاں تک کہ امویوں کے صحرائی محلات بھی زرعی پیداوار بڑھانے کے مراکز تھے۔[6] خود خلیفہ معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما زراعت کو ترقی دینے اور زرعی پیداوار کا معیار بہتر بنانے میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔ وہ آب پاشی کے وسائل کو ترقی دیتے، زمینوں کو زرخیز بنانے پر اپنی توجہ مبذول کرتے اور اس کے لیے مقامی لوگوں میں سے تجربہ کار لوگوں کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے۔[7] یزید بن معاویہ کو تو مہندس (انجینئر) کے
Flag Counter