Maktaba Wahhabi

211 - 503
پر وہ تنقید کے تیر برساتے رہتا ہے انہوں نے اتنے بڑے بڑے نیک اعمال کیے ہوں جن کے مقابلہ میں ان کے گناہ نہ ہونے کے برابر ہوں۔[1] ب:… ثابت بن قیس انصاری رضی اللہ عنہ: ثابت بن قیس بن خطیم رضی اللہ عنہ بڑے خوددار شخص تھے۔ انہوں نے علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہ کر ابتلا و آزمائش کے دن بسر کیے۔ پھر انہوں نے انہیں مدائن کا عامل مقرر فرمایا اور وہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے کوفہ آنے تک اس منصب پر فائز رہے۔ ایک دن ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اپنے گھر گئے تو دیکھا کہ انصار بنو ظفر کی مسجد میں جمع ہو کر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنے حقوق کے بارے میں خط لکھنا چاہتے ہیں۔ آپ نے ان سے دریافت کیا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہم معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھنا چاہتے ہیں۔ فرمایا: ان کے نام ایک جماعت کے خط لکھنے سے تمہیں کیا حاصل ہو گا؟ انہیں ہم میں سے ایک آدمی خط لکھے اس لیے کہ اگر تم میں سے کسی ایک کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آئے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم سب کے ساتھ کچھ ہو اور تمہارے نام بھی ان کے پاس چلے جائیں۔ وہ کہنے لگے: ہمارے لیے یہ قربانی کون دے گا؟ ثابت نے کہا: اس کے لیے میں حاضر ہوں۔ انہوں نے اس پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا تو انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا اور اپنی ذات سے آغاز کرتے ہوئے کئی باتوں کا تذکرہ کیا، مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اور آگے چل کر لکھا: آپ نے ہمارے حقوق روک کر رکھے ہیں، ہم پر سرکشی اور زیادتی کی جبکہ ہمارا گناہ صرف یہی ہے کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و معاونت کی۔ جب یہ خط معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملا تو انہوں نے اسے یزید کے حوالے کر دیا، اس نے وہ خط پڑھا اور پھر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا: اسے اس کے گھر کے دروازے کے سامنے سولی پر چڑھا دیں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے شامی اکابرین سے اس بارے مشورہ کیا تو وہ کہنے لگے: اسے پیغام بھیج کر یہاں بلائیں اور اسے اپنے حواریوں اور معززین کے سامنے کھڑا کریں تاکہ وہ اسے اچھی طرح دیکھ لیں اور پھر اسے سولی پر چڑھا دیں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور تجویز بھی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ پھر انہوں نے ثابت رضی اللہ عنہ کے نام یہ خط لکھا: میں نے تمہارے خط کا مفہوم سمجھ لیا ہے۔ آپ مجھے تین دن کی مہلت دیں جب یہ خط ثابت کو ملا تو انہوں نے اسے پڑھ کر اپنی قوم کو سنایا۔ ابھی چوتھے دن کی صبح ہی ہوئی تھی کہ ان کی طرف سے ارسال کردہ عطیہ ان کے ہاتھوں میں تھا۔[2] اس خبر سے معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکمت و سیاست کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جب انہوں نے اپنے بیٹے یزید اور شام کے بعض سرکردہ لوگوں سے مشورہ کیا اور ان سے ان کی رائے مانگی تو آپ کو ان کی رائے پسند نہ آئی اور ان کے اس موقف کو تسلیم نہ کیا کہ لوگوں کے ساتھ سختی سے نمٹ جائے اور ان پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا جائے۔ اس کے برعکس آپ نے فوراً انصار مدینہ کے پاس ان کے لیے عطیات بھجوائے اور خط میں اختیار کردہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے سخت لہجہ پر ان کا کوئی مواخذہ نہ کیا۔ اس حکیمانہ تصرف اور سیاست رشیدہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کا کچھ نہیں بگاڑا
Flag Counter