Maktaba Wahhabi

150 - 503
تلواروں کے سامنے لے کر آیا۔‘‘ بہت دور کی تاویل ہے اس لیے کہ اگر یہ بات ہو تو جہاد فی سبیل اللہ کے دوران جام شہادت نوش کرنے والوں کا قاتل لشکر کا کمانڈر قرار پائے گا اس لیے کہ دشمن کی تلواروں کے سامنے انہیں وہ لے کر آیا۔[1] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جہاں تک مجھے معلوم ہے ائمہ اربعہ کے پیروکاروں اور ان جیسے دیگر اہل سنت میں سے یہ کسی کا بھی قول نہیں ہے، یہ بہت سارے مروانی اور ان کے ہم نوا لوگوں کا قول ہے۔‘‘[2] ابن قیم اس تاویل کی تعلیق میں فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے لیے اس ارشاد کہ ’’تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘[3] تو اہل شام نے اس کی جو یہ تاویل کی کہ ’’اسے ہم نے قتل نہیں کیا بلکہ اس کے قاتل وہ ہیں جنہوں نے اسے لا کر ہمارے نیزوں کے سامنے پھینک دیا۔‘‘ تو ان کی یہ تاویل سراسر باطل ہے جو اس لفظ کے ظاہر کے بھی خلاف ہے اور اس کی حقیقت کے بھی، عمار رضی اللہ عنہ کا قاتل وہی ہے جس نے انہیں قتل کیا نہ کہ وہ جو اُن سے مدد کا خواستگار ہوا۔[4] ۶۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا قاتل کون ہے؟ ابو العادیہ جہنی اپنی طرف سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے جنگ صفین کے موقع پر دونوں گروہوں کی صفوں کے درمیان ایک آدمی کی سرین پر نیزہ مارا تو وہ لڑکھڑا کر گر پڑا اور اس کے سر سے خود گر گئی پھر میں نے اس پر تلوار کا وار کیا تو پتا چلا کہ یہ تو عمار کا سر ہے پھر اسے قتل کر ڈالا۔ جہنی نے پانی مانگا تو اسے شیشے کے برتن میں پانی دیا گیا مگر اس نے اس برتن میں پانی پینے سے انکار کر دیا پھر اسے پیالے میں پانی ڈال کر دیا گیا تو اس نے پی لیا۔ یہ منظر دیکھ کر ایک آدمی نے کہا: … اسے دیکھو کہ یہ شیشے کے برتن میں تو پانی پینے سے پرہیز کرتا ہے مگر اس نے عمار کو قتل کرنے سے پرہیز نہیں کیا۔[5] عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: عمار کا قاتل اور ان کے جسم سے ہتھیار اتارنے والا جہنمی ہے۔‘‘[6] ابن کثیر فرماتے ہیں: ’’یہ بات سبھی کے علم میں ہے کہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما صفین کے دن علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے اور انہیں اہل شام سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے قتل کیا ان کے قاتل کا نام ابو الغادیہ تھا، ایک (شاذ) قول کی رو سے وہ صحابی تھا۔‘‘[7] ابن حجر فرماتے ہیں: ’’ان جنگوں میں شریک صحابہ کرام کے بارے میں یہ گمان رکھنا چاہیے کہ وہ تاویل کنندہ تھے اور غلطی کرنے والے مجتہد کے لیے اکہرا اجر ہے۔ جب یہ اصول عام لوگوں کے لیے ثابت ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے بطریق اولیٰ ثابت ہے۔‘‘[8]
Flag Counter