Maktaba Wahhabi

286 - 503
چوتھی بحث: خوارج، عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں خوارج اس نام سے معرکہ صفین میں تحکیم کے بعد معروف ہوئے۔ قبل ازیں ان کا شمار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے انصار میں ہوتا تھا، یہ لوگ جنگ جمل اور معرکہ صفین میں ان کے ساتھ تھے، بعد ازاں وہ تحکیم کو مسترد کرتے ہوئے ان کی مخالفت پر اتر آئے، علی رضی اللہ عنہ نے انہیں مطمئن کر کے واپس اپنی جماعت میں لانے کی بڑی کوشش کی مگر وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور پھر انہوں نے انتہا پسندی سے کام لیتے ہوئے زمین میں فساد برپا کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی اور ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا جنگ نہروان میں خاتمہ کر دیا۔ وہ اپنے لیے خوارج کے نام کو پسند نہیں کرتے تھے اس لیے کہ انہیں اس نام سے ان کے مخالفین نے موسوم کیا تھا جس کی وجہ ان کا مسلمانوں کے ایام اور ان کی جماعت کے خلاف خروج کرنا تھا، وہ اپنے آپ کو شراۃ کے نام سے موسوم کیا کرتے تھے کیوں کہ انہوں نے اس امید سے اپنی جانوں کو اللہ تعالیٰ کے لیے فروخت کر دیا تھا کہ انہیں آخرت میں جنت کا داخلہ نصیب ہو گا۔ ان کا اشارہ اس ارشاد باری تعالیٰ کی طرف تھا: ﴿اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَ اَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ﴾ (التوبۃ: ۱۱۱) ’’یقینا اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں اس کے عوض کہ ان کے لیے جنت ہے۔‘‘ خوارج کو محکمۃ بھی کہا جاتا ہے، اس لیے کہ انہوں نے ((لَا حُکْمَ اِلَّا لِلّٰہِ)) کا نعرہ لگایا تھا۔ نیز ان پر حروریۃ کا بھی اطلاق کیا جاتا ہے، یہ حروراء نامی اسی بستی کی طرف نسبت ہے جو کوفہ کے مضافات میں واقع ہے اور جہاں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغاوت کرنے کے بعد پہلی دفعہ جا ٹھہرے تھے۔[1] چونکہ ان کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کا سبب ان کے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان واقعہ تحکیم تھا، لہٰذا انہوں نے خلافت کے بارے میں جو نظریہ اختیار کیا وہ دو عام اصولوں پر قائم تھا جن پر ان کے مختلف گروہوں کا اتفاق ہے۔[2] پہلا اصول:… خلافت قریش کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جیسا کہ اہل سنت کا مذہب ہے۔[3] بلکہ ہر وہ مسلمان اس کا استحقاق رکھتا ہے جو اس کی اہلیت رکھتا ہو اگرچہ وہ حبشی غلام ہو۔ خلیفہ کا مسلمانوں کے آزادانہ اختیار
Flag Counter