Maktaba Wahhabi

99 - 503
عرض کیا اس کی وجہ طرفین میں اعلیٰ درجہ کے تقویٰ وا طاعت کا فقدان اور ان میں خواہش پرستی اور معصیت کی آمیزش تھی۔ ان میں سے ہر فریق تاویل کرتا اور یہ دعویٰ کرتا کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ یہ کہ وہ حق اور عدل کے ساتھ ہے۔ مگر ان کی اس تاویل میں نفسانی خواہشات کا بھی عمل دخل تھا۔ اگرچہ ان میں سے ایک جماعت دوسری سے زیادہ حق کے قریب تھی۔ ہمارے اس موقف کی وضاحت امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ایک پیروکار کے درمیان ان کی اس بات چیت سے ہوتی ہے، وہ آدمی کہنے لگا: مسلمانوں کو کیا ہوا کہ انہوں نے آپ کے بارے میں اختلاف کیا جبکہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں اختلاف نہ کیا؟ اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما مجھ جیسے لوگوں کے حکمران تھے جبکہ میں آج تم جیسے لوگوں کا حکمران ہوں۔[1] امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مسلم معاشرہ میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا بخوبی ادراک تھا۔ اسی لیے آپ نے امراء کے نام ایک خط میں لکھا: رعیت میں انتشار پیدا ہو رہا ہے اور وہ حریص اور لالچی ہو چکی ہے اور اس کی تین وجوہات ہیں: دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا، نفسانی خواہشات کی تکمیل کرنا اور دلوں میں بغض رکھنا۔[2] ہ:…حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بننا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے فوری بعد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا مسند خلافت سنبھالنا۔ چونکہ ان دونوں کا مزاج ایک دوسرے سے مختلف تھا جس کی وجہ سے رعیت کے ساتھ ان کا طرز عمل اور رویہ بھی ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ سخت مزاج تھے وہ اپنا محاسبہ بھی بڑی سختی کے ساتھ کیا کرتے تھے اور اپنے ماتحت لوگوں کا بھی۔ جبکہ عثمان رضی اللہ عنہ نرم خو، نرم زبان اور نرم دل انسان تھے جس کی وجہ سے وہ نہ تو عمر رضی اللہ عنہ کی طرح اپنا محاسبہ کرتے اور نہ دوسرے لوگوں کا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: اللہ تعالیٰ عمر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے جو طاقت عمر رضی اللہ عنہ میں تھی وہ کسی اور میں کہاں؟[3] اگرچہ لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز ہی میں انہیں ان کی نرم مزاجی کی وجہ سے بڑا پسند کیا، اس لیے کہ وہ ان کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آتے تھے یہاں تک کہ ان کی محبت ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئی تھی مگر بعد ازاں انہوں نے احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پر اعتراضات کرنے شروع کر دئیے۔ لوگوں کے ساتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محبت پر مبنی یہ رویہ ان کی نرم مزاجی، خوش اطواری اور ان کے حلم و حوصلہ کی وجہ سے تھا۔ اور اس کا انہیں بخوبی ادراک بھی تھا۔ انہوں نے بیت خلافت کا محاصرہ کرنے والوں سے فرمایا تھا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم لوگوں کو میرے خلاف اتنا دلیر کس نے بنایا؟ تمہیں میرے خلاف اس قدر دلیری میرے حلم و حوصلہ نے دی۔[4] جب عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تمام لوگوں کے سامنے باغیوں کے ان تمام اعتراضات کا جواب دے دیا تو مسلمانوں نے انہیں قتل کرنے کے علاوہ کسی بھی بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو
Flag Counter