Maktaba Wahhabi

151 - 503
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’رافضیوں کے نزدیک ابن ملجم آخرت میں ساری مخلوق سے زیادہ بدنصیب ہو گا۔ جبکہ اہل سنت اس کے لیے جہنم کی امید کرتے اور اسی امر کو جائز بتاتے ہیں کہ اگر اللہ چاہے تو اس سے درگزر کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے ان کا عقیدہ خوارج اور رافضیوں جیسا نہیں ہے اور اس کا حکم عثمان رضی اللہ عنہ ، زبیر رضی اللہ عنہ ، طلحہ رضی اللہ عنہ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ ، عمار رضی اللہ عنہ ، خارجہ رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں والا ہے۔ ہم ان سب سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ کے لیے ان سے بغض رکھتے ہیں ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔‘‘[1] ابن حجر رحمہ اللہ کے اس قول کے بارے میں شیخ البانی فرماتے ہیں: ’’ان کا یہ قول مبنی برحق ہے مگر امت کے ہر فرد پر اس کا اطلاق مشکل ہے، اس لیے کہ اس طرح قاعدہ مذکورہ اس حدیث کے مناقض ہو گا: ’’عمار کا قاتل اور ان کے جسم سے ساز و سامان اتارنے والا جہنمی ہے۔‘‘[2] اس لیے کہ یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ عمار کے قاتل ابو غادیہ کو اجر و ثواب سے نوازا جائے گا، کیونکہ اس نے عمار رضی اللہ عنہ کو اجتہاد کرتے ہوئے قتل کیا تھا اور یہ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’عمار کا قاتل جہنمی ہے۔‘‘[3] دریں حالات یہ کہنا صائب ہو گا کہ یہ قاعدہ صحیح ہے الا یہ کہ کوئی قطعی دلیل اس کے خلاف پر دلالت کرے تو وہ صورت اس سے مستثنیٰ ہو گی جیسا کہ اس جگہ ہے۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ اس قاعدہ کی رو سے صحیح حدیث کو مسترد کر دیا جائے۔[4] ابو الغادیہ جہنی کے حالاتِ زندگی میں ابن عبدالبر فرماتے ہیں: اس کے نام میں اختلاف ہے، ایک قول کی رو سے اس کا نام یسار بن سعید ہے، دوسرے قول کی رو سے یسار بن ازہر اور تیسرے قول کی رو سے اس کا نام اسلم ہے، وہ شام میں سکونت پذیر تھا، واسط میں بھی رہائش پذیر رہا، اس نے بچپن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا، اس سے اسی کا یہ قول مروی ہے کہ میں نے بچپن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا یہ فرمان سنا تھا: ((لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ)) [5] ’’میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔‘‘ یہ شخص عثمان رضی اللہ عنہ کا محب تھا اور وہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا قاتل ہے، وہ ان کے قتل کا واقعہ بے دھڑک بیان کیا کرتا تھا، اہل علم کے نزدیک اس کا یہ واقعہ بڑا تعجب خیز ہے۔[6] ۷۔ دورانِ جنگ طرفین کا قابل قدر رویہ: جنگ صفین مسلمانوں میں ایک عجیب و غریب واقعہ کی حیثیت رکھتی ہے، یہ واقعہ اس حد تک انوکھا ہے کہ اس کا قاری جو کچھ پڑھتا ہے اس کی تصدیق نہیں کر سکتا اور طرفین کے رویے کے سامنے سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ہر فریق جنگ کے دوران اپنے موقف کی صحت پر مکمل یقین رکھتے ہوئے تلوار لہرائے کھڑا ہے، یہ معرکہ ایسا نہیں تھا جسے قیادت کی طرف سے لشکر پر مسلط کر دیا گیا ہو اور وہ اس سے کسی حد تک بھی مطمئن نہ ہو، بلکہ یہ اپنے اسباب،
Flag Counter