Maktaba Wahhabi

76 - 503
حبیب رضی اللہ عنہ نے اپنا یہ جہاد جاری رکھا اور آرمینیہ اور آذر بیجان کے علاقوں میں پے درپے کامیابیاں حاصل کیں اور انہیں بزور بازو یا پھر صلح کے ذریعے فتح کر لیا۔[1] حبیب فہری رضی اللہ عنہ کا شمار ان ممتاز کمانڈروں میں ہوتا ہے جنہوں نے بینرنظی آرمینیہ کے ساتھ جنگ کی۔ اس دوران انہوں نے دشمن کے متعدد لشکروں کو نیست و نابود کرتے ہوئے بہت سے قلعے اور شہر فتح کر لیے۔[2] اس طرح انہوں نے سرزمین روم میں عراقی جزیرہ کی سرحدوں سے متصل علاقوں میں موجود متعدد قلعوں پر بھی پرچم اسلام لہرانے کا اعزاز حاصل کیا۔ جن میں شمشاط اور ملطیہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔[3] ۲۔ خلافت عثمانی میں معاویہ رضی اللہ عنہ بری محاذ پر: معاویہ رضی اللہ عنہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ پورے طور پر رومی خطرات کا ازالہ صرف اس صورت ممکن ہے کہ انہیں مسلسل میدان جنگ میں الجھا کر رکھا جائے۔ شامی اور جزائری سرحدوں پر جہادی سرگرمیوں کو مزید تیز کیا جائے۔معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے کافی وقت صرف کیا اور عہد عثمان رضی اللہ عنہ میں اپنی ولایت کے دوران بڑی جدوجہد بھی کی۔ ۲۵ھ میں انہوں نے جب شامی سرحدوں کا دور کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ انطاکیہ اور طرطوس کے درمیان موجود قلعے خالی پڑے ہیں تو اہل شام، جزیرہ اور قنسرین کے کچھ لوگ وہاں مقیم ہو گئے۔[4] اس کے سال یا دوسال بعد انہوں نے اس مقصد کے لیے یزید بن حر عبسی کو روانہ کیا،[5] دیگر ولاۃ بھی ایسی ہی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ ۳۱ھ میں انہوں نے مصیصہ کی طرف سے کارروائی کی اور درولیہ تک جا پہنچے(مصیعہ اور درولیہ شامی سرحدیں ہیں)۔ پھر جب یہاں سے نکلے تو انطاکیہ تک ان کے سامنے جو قلعہ بھی آیا اسے گراتے چلے گئے۔[6] اس دوران ان کی توجہ کا خصوصی مرکز جزائر کی سرحدیں رہیں۔ آپ نے اپنی اس ولایت کے ابتدائی ایام میں حبیب بن مسلمہ فہری اور صفوان بن معطل سلمی کو شمشاط بھیجا تو انہوں نے اسے فتح کر لیا۔ ملطیہ جو کہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا اسے دوبارہ فتح کرنے کے لیے انہوں نے حبیب بن مسلمہ کو بھیجا تو انہوں نے بزور طاقت اسے دشمن کے ہاتھوں سے چھین لیا اور وہاں ایک عامل مقرر کیا جو مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ رابطے میں رہتا۔ اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے بذات خود اعدائے اسلام پر حملہ کیا جس سے مقصود روم کے اندر تک رسائی حاصل کرنا تھا۔ اس دوران جب ان کا گزر ملطیہ پر ہوا تو انہوں نے وہاں اہل شام، اہل جزیرہ اور دیگر علاقوں کے کچھ لوگوں کو چھوڑا تاکہ موسم گرما کے حملوں کے لیے یہ راستہ پُرامن رہے۔ اسی سال انہوں نے حصن المرأۃ پر چڑھائی کی اور مرعش نامی شہر تعمیر کر کے اس میں اسلامی لشکر کو آباد کیا۔[7]
Flag Counter