Maktaba Wahhabi

210 - 503
ا:… مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور ان کا معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض: عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ وہ ایک وفد کی صورت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے میری ضرورت پوری کر دی، پھر مجھے علیحدگی میں بلا کر کہنے لگے: مسور! تم ائمہ پر لعن طعن کیا کرتے تھے اب اس کا کیا بنا؟ انہوں نے جواب دیا: ہمارے بارے میں درگزر سے کام لیں اور ہم سے جو کچھ ہوا اسے جانے دیں۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم، تمہیں میرے عیوب و نقائص کے بارے میں بتانا ہو گا۔ مسور کہتے ہیں ان کے اصرار پر میں نے وہ تمام عیوب ان کے سامنے گنوا دئیے جو میں ان پر لگایا کرتا تھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: گناہ سے تو کوئی بھی بری نہیں ہے مگر کیا تم میرے وہ اصلاحی اقدامات بھی گنوا سکتے ہو جو میں نے عوام الناس کے لیے سر انجام دئیے اس لیے کہ نیکی کا اجر دس گنا ملتا ہے؟ یا تو میرے گناہ ہی گنتا رہے گا اور نیکیوں کو طاق نسیان پر رکھ دے گا؟ مسور کہنے لگے: ہم صرف انہی گناہوں کا ذکر کرتے ہیں جنہیں تم بھی دیکھ رہے ہو۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم اللہ کے سامنے اپنے ہر گناہ کا اعتراف کرتے ہیں مگر کیا تم نے بھی کوئی ایسا گناہ کیا ہے کہ اگر اللہ نے تمہیں وہ گناہ معاف نہ کیا تو وہ تمہیں ہلاک کر ڈالے گا؟ مسور نے اس کا جواب اثباب میں دیا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں کون سی چیز نے اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ تم مجھ سے زیادہ مغفرت کی امید کرتے ہو؟ اللہ کی قسم! تم مجھ سے زیادہ اصلاحی امور سر انجام نہیں دیتے ہو۔ اللہ کی قسم! میں نے ہمیشہ اللہ کو اس کے علاوہ ہر چیز پر پسند کیا اور میں اس دین کا پیروکار ہوں جس میں اللہ تعالیٰ عمل کو پسند کرتا ہے، حسنات کا بدلہ دیتا ہے اور گناہوں کی سزا دیتا ہے مگر جسے چاہے اسے معاف بھی فرما دیا کرتا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ ہر نیکی کا بدلہ کئی گنا دے گا، بحمد اللہ میں اللہ کے لیے ایسے بڑے بڑے امور سر انجام دیتا ہوں جنہیں نہ تو تم شمار کر سکتے ہو اور نہ ہی وہ میرے شمار میں ہیں۔ مثلاً اقامت صلاۃ کا اہتمام کرنا، فی سبیل اللہ جہاد کرنا، بما انزل اللہ کے مطابق فیصلے کرنا اور علاوہ ازیں متعدد امور۔ مسور نے کہا: مجھے معلوم ہو گیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے جن باتوں کا ذکر کیا ہے میرے پاس ان کا کوئی جواب نہیں ہے۔ حضرت عروہ فرماتے ہیں: اس کے بعد مسور نے جب بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کو یاد کیا ان کے لیے بخشش کی دعا کی۔[1] اس خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو مطمئن کرنے اور مخالفین کے غصے کو فرو کرنے کے فن میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ نے مسور بن مخرمہ کو اپنی سیاسی حکمت عملی کو قبول کرنے پر نہ صرف یہ کہہ کر آمادہ کر لیا بلکہ وہ اس سے مطمئن بھی ہو گئے اور اگر پہلے وہ ان پر جارحانہ انداز میں تنقید کیا کرتے تھے تو اب نہ صرف یہ کہ ان کی مدح و ستائش کرنے لگ گئے بلکہ ان کے لیے دعائیں بھی کرنے لگ گئے۔ اس خبر میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے جس تربیتی پہلو کی طرف توجہ دلائی وہ یہ ہے کہ بندہ مسلم کے لیے عادلانہ رویہ یہی ہے کہ جہاں وہ حکمرانوں کی برائیوں اور خطاؤں پر نظر رکھتا ہے وہاں ان کی نیکیوں اور اچھائیوں کو بھی پیش نظر رکھا کرے اور پھر ان دونوں پہلوؤں میں موازنہ کرے، ہو سکتا ہے کہ جن حکمرانوں
Flag Counter