Maktaba Wahhabi

74 - 503
عبادۃ بن صامت، ابوایوب انصاری، ابو ذر غفاری اور شداد بن اوس رضی اللہ عنہم بھی ان کے ساتھ تھے۔[1] (ب)…اسلامی بحری بیڑہ:…اللہ تعالیٰ نے پہلے اسلامی بحری بیڑے کی تیاری کی سعادت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بخشی جس سے سمندر میں جہاد فی سبیل اللہ کا دروازہ کھل گیا جو کہ مصر اور شام کی حمایت اور دشمن کے بحری بیڑے کی بڑھتی ہوئی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے تھا ان دنوں صوبوں کی ساحلی پٹیوں پر ان کی مسلسل غارت گری اور اس سے متاثرین کی نصرت و امداد کے لیے ازحد ضروری ہو چکا تھا۔ موسم سرما اور موسم گرما کے دوران کی گئی جنگی کارروائیاں خشکی کے راستوں سے پیش آمدہ خطرات کو تو روکنے میں موثر ثابت ہوئی تھیں مگر انطاکیہ سے لے کر اسکندریہ تک کے ساحلی شہر ابھی تک رومی بحری بیڑے کے رحم و کرم پر تھے۔ نیز معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ ادراک بھی ہو گیا تھا کہ جب تک رومیوں کی بحری قوت کا خاتمہ نہیں ہوتا اس وقت تک افریقہ میں اسلامی فتوحات کے دائرہ کو وسیع کرنا ممکن نہیں ہے۔[2] مگر عملی طور پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بحری غزوات کا آغاز حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں کیا۔ اس کی تفصیل آگے چل کر آئے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۳…عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت کا منصب سنبھالا تو اس وقت معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے بیشتر علاقوں کے حکمران تھے، جس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یمن، بحرین، مصر اور دیگر صوبوں کے گورنروں کو ان کے مناصب پر برقرار رکھا تھا اسی طرح انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی ان کے عہدے پر برقرار رکھا بلکہ بعض مزید علاقے بھی ان کی عملداری میں دے دئیے۔ یہاں تک کہ وہ نہ صرف بلاد شام کے مطلق والی بن گئے بلکہ وہ دیگر والیوں کے مقابلے میں انتہائی طاقتور اور بڑے گہرے اثر و نفوذ کے مالک بھی بن گئے۔ حضرت عثمان کی خلافت کے ابتدائی ایام میں عمیر بن سعد انصاری حمص کے گورنر تھے مگر جب وہ بیماری کی وجہ سے اس عہدے کی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل نہ رہے تو انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے معذرت کر لی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ان کی معذرت قبول کرتے ہوئے ان کی ولایت کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے ماتحت کر دیا جس سے ان کے نفوذ میں مزید اضافہ ہو گیا۔[3] اس طرح فلسطین کے والی علقمہ بن محرز کی وفات کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ صوبہ بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں کر دیا۔ اس طرح عثمان کے خلیفہ بننے کے دو سال بعد معاویہ رضی اللہ عنہ سارے شام کے گورنر قرار پائے اور وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت تک بلاشرکت غیرے شام کے گورنر رہے۔[4] شام پر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ولایت کا دورانیہ احداث و واقعات سے بھرپور رہا۔ اس دوران اس علاقہ کا شمار جہاد اسلام کے اہم ترین علاقوں میں ہوتا تھا۔
Flag Counter