Maktaba Wahhabi

387 - 503
مختلف شہروں کے ولاۃ و عمال کے نام پہلے بتائے جا چکے ہیں۔[1] اس سلسلے میں ابن جوزی[2]اور ابن اثیر نے بھی اس کی متابعت کی ہے۔[3] خامساً:… طائف کے گورنر طبری نے طائف کے ولاۃ کے نام نہیں بتائے، مگر اس سے وارد ایک روایت سے مستفاد ہوتا ہے کہ بنو حرب کے بعض افراد اس منصب پر فائز ہوئے، وہ روایت اس طرح سے ہے: جب معاویہ رضی اللہ عنہ بنو حرب میں سے کسی کو والی بنانا چاہتے تو اسے سب سے پہلے طائف کا والی مقرر کرتے، پھر اگر اس میں خیر اور اپنی پسند کا کوئی پہلو دیکھتے تو اسے مکہ کی ولایت بھی دے دیتے اور اگر اس میں مزید صلاحیت پاتے تو اسے ان دونوں شہروں کے ساتھ مدینہ منورہ کی ولایت بھی سونپ دیتے۔ جب وہ کسی کو طائف کا والی مقرر کرتے تو کہا جاتا: وہ آغاز کار میں ہے۔[4] جب اسے مکہ کا والی بناتے تو کہا جاتا ہے: وہ قرآن میں ہے، پھر جب اسے مدینہ منورہ کا والی بناتے تو کہا جاتا، وہ پختہ کار ہے۔[5] بنو حرب میں سے طائف کا والی کسے بنایا گیا تھا؟ تو طبری میں ان کے نام مذکور نہیں ہیں، مگر بلاذری کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ عنبسہ بن ابو سفیان بن حرب اور عتبہ بن ابوسفیان بن حرب کو طائف کی ولایت سونپی گئی تھی۔[6] سادساً:… مصر ۱۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی ولایت:… معاویہ رضی اللہ عنہ نے ۴۱ھ میں حضرت عمرو بن العاص کو مصر کا والی مقرر فرمایا،[7] اور اس طرح ایک مناسب آدمی کو مناسب جگہ پر بٹھا دیا۔ عمرو فاتح مصر ہیں آپ رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ادوار خلافت میں اس کے والی رہے، اور وہ اس اہم ترین ولایت کے لیے سب سے موزوں شخص تھے۔[8] ایسی ضعیف اور موضوع روایات بکثرت وارد ہیں جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ساز باز کی وجہ سے انہیں مصر کی ولایت دی گئی۔ اور یہ کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد فتنہ کے ایام میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینے کا صلہ تھا۔ میں نے اس بات کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اپنی کتاب میں بڑی وضاحت کے ساتھ
Flag Counter