Maktaba Wahhabi

287 - 503
کے ذریعے منتخب ہونا ضروری ہے، پھر جب اس کا انتخاب پایہ تکمیل کو پہنچ جائے تو پھر نہ تو اس کے لیے اس منصب سے الگ ہونا جائز ہے اور نہ ہی وہ تحکیم کو قبول کر سکتا ہے، اس اصول کی روشنی میں وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں، عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے نصف اوّل کو تسلیم کرتے جبکہ بعد ازاں کے عہد خلافت سے لاتعلقی کا اظہار کرتے اور انہیں کافر بتاتے ہیں، جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے تو وہ ان کی خلافت کا آغاز سے لے کر تحکیم سے قبل تک اعتراف کرتے ہیں جبکہ تحکیم کے بعد نہ صرف یہ کہ ان کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ انہیں کافر گردانتے ہیں۔[1] اسی طرح وہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور بنو امیہ کی خلافت کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔[2] اور انہیں کافر بتاتے ہیں۔ خوارج حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، طلحہ، زبیر، عمرو بن العاص اور ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہم کو بھی کافر کہتے ہیں۔ المختصر وہ مسلمانوں میں سے ہر اس شخص کو کافر گردانتے ہیں جو ان کی رائے سے اختلاف کرتا اور ان کے مذہب کو اختیار نہیں کرتا، اس بنا پر وہ ان کے ملک کو دار الکفر خیال کرتے، ان کے اموال اور خون کو مباح قرار دیتے اور ان کے بچوں تک کے قتل کو جائز تسلیم کرتے ہیں۔[3] دوسرا اُصول:… دوسرا اصول جس پر نظریہ خوارج قائم ہے وہ یہ ہے کہ ظالم امام کے خلاف خروج کرنا واجب ہے۔[4] خارجی نظریات کا یہ پہلو انتہائی خطرناک ہے، اگر ان کا اختلاف نظری اختلاف تک محدود رہتا یا دلیل و برہان کے ساتھ جدل و جدال سے آگے نہ بڑھتا تو معاملہ بالکل آسان تھا، مگر انہوں نے اپنے مخالفین کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے اور اس کا آغاز علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے کیا اور بزورِ بازو اپنی آراء اور اپنے مذہب کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی، وہ جس طرح اپنی رائے اور مذہب میں انتہا پسند ثابت ہوئے اسی طرح طاقت اور تشدد کے استعمال میں بھی آخری حد تک جا پہنچے، اسی طرح انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو بلکہ امت کو بھی شدید نقصان پہنچایا اور دولت امویہ کو سنگین صورتِ حال سے دوچار کر دیا جس کے وہ زبردست مخالف تھے۔[5] خوارج کے بارے میں مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں میری کتاب: ’’سیرۃ امیر المومنین علی بن ابوطالب شخصیتہ و عصرہ‘‘۔[6] جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا خوارج کی تحریک کی خطرناکی ان کی شدت پسندی میں پنہاں تھی اور چونکہ وہ اپنے خودساختہ اصولوں پر سختی کے ساتھ کاربند تھے، لہٰذا انہوں نے اس کے لیے خوشی خوشی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور دولتِ امویہ کے ساتھ اپنی جنگوں میں شجاعت و دلیری کی عجیب و غریب داستانیں رقم کیں۔ اس دوران وہ خودکش گروہوں کے مماثل نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اکثر اوقات انتہائی کم تعداد میں ہونے کے باوجود
Flag Counter