Maktaba Wahhabi

133 - 503
۵۔ معرکہ جمل کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجنا: امیر المومنین علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ ۳۶ھ میں بائیس رجب کو سوموار کے دن کوفہ میں داخل ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ قصر ابیض میں قیام فرمائیں، مگر آپ نے یہ کہتے ہوئے اس سے انکار کر دیا کہ چونکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اسے ناپسند کرتے تھے، لہٰذا میں بھی اسے ناپسند کرتا ہوں، چنانچہ آپ ایک کھلی جگہ سواری سے اترے اور مسجد میں دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا۔ انہیں خیر کی ترغیب دلائی اور شر سے منع فرمایا۔ انہوں نے اس خطبہ کے دوران اہل کوفہ کی مدح و ستائش کی۔ پھر آپ نے والی ہمدان جریر بن عبداللہ اور آذر بیجان کے نائب والی اشعث بن قیس کو حکم دیا کہ وہ وہاں موجود لوگوں سے ان کے لیے بیعت لیں اور پھر ان کے پاس حاضر ہوں، چنانچہ انہوں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی۔ جب آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنی بیعت کی دعوت دینے کے لیے انہیں پیغام بھیجنے کا ارادہ کیا تو جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: امیر المومنین! ان کے پاس میں جاؤں گا اس لیے کہ ہمارے درمیان دوستی کا رشتہ ہے، ان سے آپ کے لیے بیعت میں لوں گا۔ یہ سن کر اشتر کہنے لگا: امیر المومنین! انہیں مت بھیجیں، مجھے ڈر ہے کہ ان کے ساتھ ان کی ذاتی خواہش بھی ہو گی۔ مگر علی رضی اللہ عنہ نے اس کی بات کو رد کرتے ہوئے حضرت جریر کو حضرت معاویہ کے پاس بھیجا اور ان کو حضرت معاویہ کے نام ایک خط دیا جس میں انہیں بتایا گیا تھا کہ انصار و مہاجرین کا ان کی بیعت پر اتفاق ہو چکا ہے اس خط میں انہیں واقعہ جمل میں ہونے والے واقعات سے بھی آگاہ کیا گیا تھا اور دوسرے لوگوں کی طرح انہیں بھی اپنی بیعت کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ جب جریر بن عبداللہ، معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو آپ نے انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خط دیا۔ خط پڑھنے کے بعد انہوں نے عمرو بن العاص اور اہل شام کے سرکردہ لوگوں کو اپنے پاس بلایا اور ان سے مشاورت کی مگر انہوں نے اس وقت تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا جب تک قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے قصاص میں قتل نہیں کر دیا جاتا یا انہیں ان کے حوالے نہیں کر دیا جاتا اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر وہ ان سے جنگ کریں گے اور ان سے بیعت نہیں کریں گے، چاہے اس کی پاداش میں ان سب کو قتل ہی کیوں نہ کر دیا جائے۔ جریر، علی رضی اللہ عنہما کے پاس آئے تو انہیں شامی رؤساء کی باتوں سے مطلع کیا۔ اس پر اشتر کہنے لگا: امیر المومنین! کیا میں نے آپ کو حضرت جریر رضی اللہ عنہ کو وہاں بھیجنے سے منع نہیں کیا تھا؟ اگر آپ اس کی جگہ مجھے بھیجتے تو معاویہ رضی اللہ عنہ جو بھی دروازہ کھولتے میں اسے بند کر دیتا۔ اس پر جریر نے ان سے کہا: اگر وہاں تو ہوتا تو وہ تجھے عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے بدلے میں قتل کر ڈالتے۔ الغرض جریر رضی اللہ عنہ ناراض ہو کر وہاں سے اٹھے اور قرقیسیاء کے مقام پر جا کر قیام پذیر ہو گئے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک خط کے ذریعے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی پوری تفصیل سے آگاہ کر دیا جس کے جواب میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک خط کے ذریعے اپنے پاس آنے کا حکم دیا اور وہ وہاں چلے گئے۔[1] یوں اشتر نے جلیل القدر صحابی جریر بن عبداللہ کو علی رضی اللہ عنہ سے دور کر دیا جو قرقیسیاء اور دوسرے علاقوں کے
Flag Counter