Maktaba Wahhabi

230 - 503
آپ نے لوگوں سے مشورہ کیا تو انہیں یہی مشورہ دیا گیا کہ آپ عراق مت تشریف لے جائیں۔ اسی طرح ان کی وفات کے وقت ان کے پاس سب سے پہلے اہل مدینہ کو لایا گیا جو کہ اس وقت امت کے افضل ترین لوگ تھے، پھر اہل شام کو اور سب سے آخر میں اہل عراق کو لایا گیا۔[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ کو عراق کو فتح کرنے سے کہیں زیادہ شام کو فتح کرنے میں دلچسپی تھی، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: ’’مجھے شام کے پہاڑ عراق کو فتح کرنے سے زیادہ پسند ہیں۔‘‘[2] نجد، عراق اور تمام اہل مشرق پر شام اور اہل مغرب کی فضیلت کے بارے میں کتاب و سنت کی نصوص اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی آثار اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے ذکر کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرق کی مذمت میں کئی صحیح نصوص وارد ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ فتنہ اور کفر کا سر وہاں سے اٹھے گا۔ اگر مشرق کو مغرب پر فضیلت حاصل تھی تو وہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے وجود مسعود کی وجہ سے تھی اور یہ ایک وقتی بات تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کے بعد اس سے نفاق، ارتداد، بدعات اور فتنوں نے سر اٹھایا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اہل شام سے کم تر تھے۔[3] نیز اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اہل عراق میں کتنے ہی ایسے علماء اور صالحین موجود تھے جو اہل شام سے کہیں افضل تھے۔ مثلاً علی، ابن مسعود، عمار، حذیفہ وغیرہم رضی اللہ عنہم شام میں موجود زیادہ تر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل تھے مگر یہ دوسری جماعت کے امر راجح کے ساتھ اختصاص سے مانع نہیں ہے اور یہ چیز بعض وجوہ سے شامی گروہ کے رجحان کو واضح کرتی ہے اگرچہ علی رضی اللہ عنہ اپنے سے جدا ہونے والوں کے مقابلہ میں حق سے زیادہ قریب تھے اور اگرچہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو باغی گروہ نے قتل کیا تھا۔ جیسا کہ اس بارے میں نصوص وارد ہیں۔ بناء بریں ہم پر فریضہ عائد ہوتا ہے کہ ہم ہر اس چیز پر ایمان لائیں جو اللہ کی طرف سے آئی اور سارے کے سارے حق کا اقرار کریں اور علم کے بغیر کوئی بات نہ کریں اور علم و عدل کی راہ پر گامزن رہیں، یہی کتاب و سنت کی اتباع ہے۔ بعض حق کو اپنانا اور بعض کو ترک کر دینا اختلاف اور تفرقہ کا باعث بنتا ہے۔[4] رابعاً:…عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں اہل حل و عقد: خلفائے راشدین کے زمانے میں اسلامی معاشرہ بڑی سرعت کے ساتھ تبدیل ہو رہا تھا بایں طور کہ اس سے ان کی حکومت کے اساسی امتیازات متاثر ہونے لگے جو کہ باہم محبت و یگانگت، خلیفہ و رعایا کے ایک دوسرے کے لیے احساس اور آپسی تعلقات میں خوف باری تعالیٰ سے عبارت تھے۔ اس تبدیلی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ مدینہ منورہ میں مقیم اہل حل و عقد کا کردار محدود ہو گیا جس کی وجہ ان میں سے زیادہ تر کی وفات یا دوسرے شہروں میں بکھر جانا تھا۔ ان شہروں کو مرکز خلافت سے کہیں زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی تھی اور یہ اس لیے کہ بعد میں مسلمان ہونے والے قبائل کا کردار بڑھ گیا تھا، ان لوگوں نے بڑی بڑی اسلامی فتوحات کی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا جس
Flag Counter