Maktaba Wahhabi

505 - 503
ان سے فرمایا: تم میرا ارادہ نہ کرو، میں تمہارے لیے بطور وزیر، امیر ہونے سے بہتر ہوں۔ وہ کہنے لگے: ہرگز نہیں، و اللہ! ہم تم سے بڑھ کر کسی کو بھی اس کا حق دار نہیں سمجھتے۔ وہ کہنے لگے: اگر تم اس پر مُصِر ہو تو پھر میری بیعت سرّی نہیں ہو گی بلکہ میں مسجد میں جاتا ہوں، آپ رضی اللہ عنہ مسجد تشریف لے گئے تو لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی۔[1] ۵۔ بیعت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا طریقہ انعقاد حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کا انعقاد ماہِ رمضان ۴۰ ہجری میں ہوا اور یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد کا واقعہ ہے۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد خلافت کے لیے کسی کی تعیین نہیں کی تھی۔ عبداللہ بن سبع سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے سنا: یقینا اس کو اس سے رنگ دیا جائے گا۔[2] آخر بدنصیب میرے بارے میں کس چیز کا انتظار کر رہا ہے۔[3] لوگوں نے کہا: امیر المومنین! اس کے بارے میں ہمیں بتائیں ہم اس کی نسل کو ہلاک کر ڈالیں گے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر تو تم میرے بدلے میں میرے قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل کر ڈالو گے۔ وہ کہنے لگے: تو پھر کسی کو ہمارا خلیفہ نامزد کر دیں، انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ میں تمہیں اس چیز کی طرف چھوڑوں گا جس کی طرف تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا تھا۔ وہ کہنے لگے: جب تم اپنے رب کے پاس جاؤ گے تو اسے کیا جواب دو گے؟ فرمایا: میں کہوں گا: یا اللہ! جب تک تو نے چاہا مجھے ان لوگوں میں زندہ رکھا پھر جب تو نے مجھے اپنے پاس بلا لیا تو پھر تو ان میں موجود تھا، اگر تو چاہتا تو ان کی اصلاح کر دیتا اور اگر چاہتا تو انہیں خراب کر دیتا۔ دوسری روایت میں ہے: میں کہوں گا: یا اللہ! جب تک تو نے چاہا مجھے ان کا خلیفہ بنائے رکھا پھر تو نے مجھے قبض کر لیا اور میں ان میں تجھے چھوڑ آیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے چار تکبیروں کے ساتھ ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر انہیں کوفہ میں دفن کر دیا گیا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے سب سے پہلے قیس بن سعد بن عبادہ خزرجی نے بیعت کی، وہ بیعت کرتے وقت کہنے لگے: میں کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ملحدین کے ساتھ جہاد کرنے پر آپ سے بیعت کرتا ہوں، اس پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں سب کچھ شامل ہے۔ ان کے لیے علیحدہ نام لینے کی ضرورت نہیں۔ پھر انہوں نے خاموشی کے ساتھ آپ سے بیعت کر لی اور پھر دوسرے لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا۔[4] جب اہل عراق نے ان سے بیعت کرنے کا اِرادہ کیا تو آپ نے ان سے یہ اقرار لیا: تم سنو گے بھی اور اطاعت بھی کرو گے جس سے میں جنگ کروں گا اس سے تم بھی جنگ کرو گے اور جس سے میں صلح کروں گا اس سے تم بھی صلح کرو گے۔[5] دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے ان سے فرمایا: و اللہ میں تم سے اپنی شرائط پر بیعت لوں گا۔ انہوں نے کہا: کون سی شرائط؟ فرمایا جس سے میں صلح کروں گا اس سے تم بھی صلح کرو گے اور جس سے میں جنگ کروں گا اس سے تم
Flag Counter