Maktaba Wahhabi

430 - 503
لگا: اس آدمی کی دعا ردّ نہیں کی جاتی۔ مگر اس سوال کا ہمارے پاس کوئی شافی جواب نہیں ہے۔ البتہ جو نتیجہ محمد علی دبوز نے اخذ کیا ہے وہ قدرے اطمینان بخش ہے اور وہ یہ کہ ابو المھاجر نے ایسا اضطراری حالت میں کیا اس لیے کہ عقبہ نے اپنی معزولی کو خوش دلی سے تسلیم نہیں کیا تھا اور وہ اپنے آپ کو ابوالمھاجر سے زیادہ ولایت اور قیادت کا حق دار خیال کرتے تھے۔ غالباً ابو المھاجر کو یہ خوف دامن گیر ہوا کہ عقبہ کے اس طرز عمل کی وجہ سے مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا جس سے ان کے دشمن اہل روم فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لہٰذا انہیں اضطراری حالت میں عقبہ کو گرفتار کر کے جیل میں رکھنا پڑا تاکہ مسلمانوں میں کوئی بگاڑ پیدا نہ ہو سکے۔[1] اگر یہ بات درست ہے اور جو بہرحال معقول ہے تو پھر اس سے اس ملامت کی شدت میں کمی آ جاتی ہے جس کا ہر وہ مسلمان ابو المھاجر کو نشانہ بناتا ہے جو اس بات کا شدت کے ساتھ خواہش مند ہے کہ مسلمان قائدین میں جس قدر بھی اختلافات موجود ہوں ان میں عزت و احترام کا رشتہ قائم رہنا چاہیے اور نئے آنے والوں کو جانے والوں کی کاوشوں اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان سے بدسلوکی پر مبنی رویہ اختیار کرنا اور دلوں میں کینہ رکھنا ناقابل قبول رویہ ہے، اسی طرح جانے والوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ آنے والوں کو اپنے تجربات سے آگاہ کریں اور انہیں پند و نصائح سے نوازا کریں تاکہ وہ اپنے مقاصد اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کامیاب ہو سکیں، اس لیے کہ مقصد تو سب کا ایک ہے اور وہ ہے جہاد فی سبیل اللہ، اعلائے کلمۃ اللہ اور دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ۔[2] خامسًا:…ابو المھاجر دینار کی فتوحات ۵۵-۶۲ھ اس سنگین غلطی کے باوصف جس کا ارتکاب ابو المھاجر نے عظیم مجاہد عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ کے حق میں کیا، انصاف ہم سے یہ اعتراف کرنے کا متقاضی ہے کہ انہوں نے مغرب کو فتح کرنے اور اسلام کو بطور دین اور نظام حیات کے قبول کرنے کے لیے راستہ ہموار کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ ابو المہاجر نے دانائی، سیاست اور حسن تصرف سے وافر حصہ پایا تھا، ان کی باریک بیں نگاہوں نے انہیں اس بات سے آشنا کیا کہ شدت کی جس سیاست پر عقبہ بن نافع گامزن رہے اسے تبدیل کرنا ضروری ہے اور یہ کہ انہیں لوگوں کے دل جیتنے کی سیاست اختیار کرنی چاہیے۔ بربر بڑے سخت قسم کے لوگ تھے جو اپنی عزت اور آزادی کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ ابو المھاجر نے دل جیتنے والی سیاست اختیار کر کے بڑی کامیابی حاصل کی۔ اس دوران انہیں اس بات کا بھی ادراک ہوا کہ شمالی افریقہ میں بربر قبائل کو مسلمانوں کے خلاف متحرک کرنے والے اور ان میں فساد برپا کرنے والے رومی ہیں[3] جو کہ ان سے دوستی کا اظہار کر کے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، لہٰذا انہوں نے لوگوں کو رومیوں کے اصل کردار سے آگاہ کرنے اور بربر قبائل کو یہ یقین دلانے کی سیاست اپنائی کہ مسلمان اس علاقے میں ان کی آزادی سلب کرنے اور انہیں غلام بنانے اور ان کا استحصال کرنے کے لیے نہیں آئے جیسا کہ رومی پروپیگنڈہ کرتے ہیں، وہ ان
Flag Counter