Maktaba Wahhabi

80 - 503
گئے۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ اہل روم آگے بڑھ کر ان کا دفاع کریں گے اور مسلمانوں کی چڑھائی کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں گے۔[1] ۵۔ اہل قبرص کی طرف سے صلح کا مطالبہ: مسلمانوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے قبرص کے دار الحکومت ’’قسطنطنیہ‘‘ کا محاصرہ کر لیا۔ محاصرے کو ابھی چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ وہ لوگ ان کے ساتھ صلح کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے جس کے لیے مسلمانوں نے چند شرائط رکھیں۔ جب کہ اہل قبرص نے یہ شرط رکھی کہ مسلمان ان پر کوئی ایسی شرط عائد نہیں کریں گے جس کی وجہ سے وہ اہل روم کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کسی مصیبت میں پھنس جائیں اس لیے کہ ہم میں نہ تو ان کا سامنا کرنے کی ہمت ہے اور نہ ان سے جنگ کرنے کی ہی طاقت۔ اہل قبرص کے ساتھ مسلمانوں کی شرائط کی تفصیل درج ذیل ہے: ۱۔ اگر جزیرہ کے رہائشی آمادہ جنگ ہوئے تو مسلمان اس کا دفاع نہیں کریں گے۔ ۲۔ جزیرہ کے باسی مسلمانوں کو ان کے دشمن رومیوں کی نقل و حرکت سے باخبر رکھیں گے۔ ۳۔ اہل جزیرہ مسلمانوں کو سالانہ سات ہزار دو سو درہم ادا کیا کریں گے۔ ۴۔ مسلمان ان کے راستے سے اپنے دشمن تک رسائی حاصل کریں گے۔ ۵۔ اگر رومی مسلمانوں سے جنگ کریں گے تو وہ ان کی نہ تو مدد کریں گے اور نہ مسلمانوں کے خفیہ معاملات سے ہی انہیں آگاہ ہی کریں گے۔[2] اہل جزیرہ کے ساتھ صلح کرنے کے بعد مسلمان شام واپس چلے گئے۔ اس حملہ نے یہ ثابت کر دکھایا کہ مسلمان رومیوں کے ساتھ جنگ کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں نیز اس دوران انہیں دشمن کے ساتھ اس قسم کی معرکہ آرائی کے لیے مشق کرنے کا موقع بھی میسر آیا جو اُن پر حملہ آور ہونے کے لیے کمربستہ رہتا ہے چاہے وہ حملہ بلاد شام پر ہو یا اسکندریہ پر۔[3] ۶۔ شام میں اسلامی بحری بیڑے کے کمانڈر عبداللہ بن قیس: معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن قیس جاسی کو بحری بیڑے کا کمانڈر مقرر کیا، اس دوران انہوں نے شاتیہ اور صائفہ کے درمیان بحری جنگی کارروائیاں کیں جن کے دوران ان کی فوج کا کوئی ایک آدمی بھی نہ تو غرق آب ہوا اور نہ کسی کو کوئی زخم ہی آیا۔ وہ اللہ سے دعا کیا کرتے تھے کہ وہ انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ان میں سے کسی کو بھی کوئی گزند نہ پہنچے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس دعا کو شرف قبولیت سے نوازا۔ یہاں تک کہ جب انہوں نے اکیلے ہی جام شہادت نوش کرنے کا ارادہ کیا تو وہ کشتی پر سوار ہو کر سرزمین روم میں مرفأ کے مقام پر جا
Flag Counter