Maktaba Wahhabi

243 - 503
داخلی سیاست ۴۱ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر امت اسلامیہ کا اجماع ہوا تو انہوں نے عالم اسلام کے گوشے گوشے میں امن و امان قائم کرنے اور استقرار و استحکام کی بنیادوں کو پختہ کرنے کے لیے اپنی تمام تر ذہانت و فطانت کو کام میں لانا شروع کر دیا۔ اس کے لیے انہوں نے داخلی سیاست کا جو منہج اپنایا وہ متعدد امور پر قائم تھا: …………… پہلی بحث: شیوخ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، ان کے بیٹوں اور خاص طور سے بنو ہاشم کی بڑی شخصیات کے ساتھ احسان پر مبنی رویہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالنے کے بعد اہل حجاز میں خطبہ دیتے ہوئے ان سے اس بارے میں معذرت کی کہ وہ خلفائے راشدین کا طریقہ اپنانے سے قاصر رہے۔ آپ نے فرمایا: ان جیسے لوگ اب کہاں ملیں گے؟ اور ان جیسے اعمال بجا لانے کی اب کس میں قدرت ہے۔ ان کے بعد کسی کے لیے بھی ان جیسے فضل و احسان کا حصول ممکن نہیں ہے۔ البتہ میں نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے اس میں میری بھی منفعت ہے اور تمہاری بھی، اس طریقہ میں تمہارے لیے خورد و نوش کا اچھا سامان موجود ہے جب تک سیرت و کردار درست رہے اور اطاعت گزاری خوب رہے، اگر تم مجھے اپنے سے بہتر نہیں پاتے تو میں تمہارے لیے بہت بہتر ہوں، اللہ کی قسم! میں اس کے خلاف تلوار نہیں اٹھاؤں گا جس کے پاس تلوار نہیں ہے۔ گزشتہ ایام میں جو کچھ بھی ہوا اسے میں نے بھلا دیا، اگر میں تمہارے تمام حقوق ادا نہیں کر سکا تو جس قدر ادا کر سکا ہوں اس پر راضی رہو، فتنہ سے کنارہ کش رہو اور اس کا ارادہ بھی نہ کرو اس لیے کہ فتنہ معیشت کو تباہ کرتا، نعمتوں کو بے مزہ بناتا اور تباہی کو جنم دیتا ہے۔ میں اپنے لیے اور تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہوں۔[1] خلیفۃ المسلمین معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس جیسی سیرت اپنائی تو انصار و مہاجرین کی اولاد اور وہ سب لوگ آپ کے تابع فرمان ہو گئے جو انہیں اپنے سے زیادہ خلافت کا حق دار سمجھتے تھے، وہ لوگوں کے دل جیتنے اور ان کے ساتھ احسان کرنے کا بڑا اہتمام کرتے اور لوگوں کی تنقیص سے بچنے کے لیے بہت زیادہ محتاط رہتے۔ معاشرے میں قائدانہ کردار ادا کرنے والی کبار شخصیات پر بلاحساب خرچ کرتے اور یہ سمجھتے کہ ان کی رعایا کی طرف سے ان پر
Flag Counter