Maktaba Wahhabi

63 - 503
دوسری بحث: اموی اور معاویہ رضی اللہ عنہ ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے عہد خلافت میں ۱… ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں کو مشکل ترین حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ پیروان اسلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کے طور پر بالاتفاق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو انہوں نے مسلمانوں کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے گرانقدر خدمات سر انجام دیں۔ مرتدین سے مسلسل جنگ کرنے کے بعد انہیں اسلام اور جماعت کے ساتھ وابستگی کے لیے مجبور کر دیا اور اس کے بعد رومیوں اور ایرانیوں کے شہروں میں فتوحاتِ اسلامیہ کا آغاز ہوا۔ مرتدین کے خلاف جنگ کرنے کے حوالے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہلا خط مکہ مکرمہ کے اموی عامل عتاب بن اسید کے نام لکھا اور اس میں انہیں ہدایت کی کہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہنے والے لوگوں کے ساتھ مل کر ان لوگوں کے خلاف کارروائی کریں جو ان کے زیرنگیں علاقوں سے مرتد ہو گئے ہیں، چنانچہ عتاب نے تہامہ میں ان کا مقابلہ کیا اور ان کے خلاف بھرپور کامیابی حاصل کی۔[1] پھر مکہ اور اس کے گرد و نواح سے پانچ سو لوگوں پر مشتمل ایک لشکر تیار کیا اور اس کا امیر اپنے بھائی خالد بن اسید کو مقرر کیا اور پھر یمن میں مرتدین کے خلاف مشترکہ کارروائی کی۔[2] اور حضرموت اور کندہ کے لوگوں کو دائرہ اسلام میں واپس لے آئے۔[3] مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی جنگوں میں لشکر اسلام کے کمانڈر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے اپنے لشکر میں شامل مہاجرین کی قیادت ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس رضی اللہ عنہ کو سونپی اس دوران زید بن خطاب رضی اللہ عنہ ان کے شریک عمل تھے۔[4] اس جنگ میں ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بڑا شاندار کردار ادا کیا جب جنگ کے آغاز میں مسلمان ادھر ادھر بکھرتے نظر آئے تو ابو حذیفہ نے چلاتے ہوئے کہا: اے اہل قرآن! قرآن کو اپنے کردار سے مزین کرو اور پھر لڑتے لڑتے جام شہادت نوش فرمایا۔[5] مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی یمامہ کی جنگوں میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے خود شرکت کی۔[6] طلیحہ اسدی کے
Flag Counter