Maktaba Wahhabi

469 - 503
کے فن کے بڑے ماہر ہوتے تھے۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں جنگی کشتیوں کی تعداد تقریباً ایک ہزار سات سو تھی، جو بحری جنگجوؤں، جنگی ہتھیاروں اور بحری جنگ کے لیے ضروری ساز و سامان سے بھری رہتیں۔[2] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنی صائب رائے کی وجہ سے اس امر کا ادراک ہو گیا تھا کہ شام اور مصر کے ساحلوں کو رومی حملوں سے بچانے کے لیے ایسے اسلامی بحری بیڑے کی تیاری ازحد ضروری ہے جو دولت اسلامیہ کی بحری حدود کا دفاع کر سکے اور دشمن کا منہ توڑنے کے لیے اس پر بوقت ضرورت ضرب کاری لگا سکے۔[3] عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں اسلامی بحری بیڑا بحر متوسط میں واقع جزائر کو یکے بعد دیگرے فتح کرتا چلا گیا جن میں جزیرہ رودس بھی شامل ہے[4] اور جیسا کہ ہم نے بتایا یہ سب کچھ نامور مسلم کمانڈر جنادہ بن امیہ زہرانی ازدی کی قیادت میں ہوا،[5] انہوں نے جزیرہ رودس کو بزور طاقت فتح کیا تھا۔ یہ جزیرہ اس علاقے کا سب سے زرخیز جزیرہ تھا جہاں انہوں نے مرکزی حکومت کے حکم سے کچھ مسلمانوں کو آباد کیا۔ وہاں ایک قلعہ تعمیر کیا اور سمندری راستے سے دشمن کی کارروائیوں سے بچنے کے لیے دیگر حفاظتی انتظامات کیے۔ وہاں مقیم اسلامی لشکر رومیوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوا۔ یہ سمندر میں ان سے تعرض کرتے اور ان سے کشتیاں چھین لیتے جس کی وجہ سے دشمن ان سے خائف رہتا۔[6] موسم سرما اور موسم گرما کے بحری حملہ آور سمندر میں گشت کرتے رہتے اور ان کے ساتھ ساتھ بری افواج کے حملہ آور دستے بحری علاقوں کے ساحلوں کی حفاظت کے لیے مصر اور شام سے روانہ ہوتے۔ ان حملہ آور دستوں کی قیادت بڑے بڑے اور مشہور کمانڈر کرتے، مثلاً یزید بن شجرہ رہاوی، موسیٰ بن نصیر، بسر بن ابو ارطاۃ عامری، جنادہ بن امیہ زہرانی اور عقبہ بن عامر وغیرہ۔ خلیفہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد دیگر اموی امراء نے بھی اسلامی بحری بیڑے کے حوالے سے ان کے منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے اسے مزید ترقی دی۔ اس میں کئی کشتیوں کا اضافہ کیا، انہیں مزید بہتر بنایا اور انہیں ہر قسم کے بحری جنگی ساز و سامان اور اسلحہ سے مزین کیا اور ان کے لے فوجیوں اور کمانڈروں کو بھرتی کیا اور ان کے لیے ضروری سپلائی اور خورد و نوش کا سامان فراہم کیا اور اس طرح اسلامی بحری بیڑے کے موسم سرما و گرما کے لشکروں نے رومیوں کو پریشان کیے رکھا اور ان کے ساحلوں اور بحری حدود کے لیے چیلنج بنے رہے۔[7] الحادي عشر:… دیوان جند اور دیوان عطاء کا اہتمام و انصرام دیوان جند کو جو ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں وہ انہیں باقاعدگی کے ساتھ ادا کر رہا تھا۔ پھر کثرت فتوحات اور دولت اسلامیہ کی حدود میں مزید وسعت آ جانے کے بعد اس میں متعدد تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں، اموی خلفاء
Flag Counter