Maktaba Wahhabi

69 - 503
عطا فرمائی کہ آج میں تمہارے ساتھ مل کر اس دشمن سے برسر پیکار ہوں۔ و اللہ! میں جب بھی مومنین کی جماعت کے ساتھ مل کر مشرکین کی کسی جماعت پر حملہ آور ہوا انہوں نے ہمارے لیے میدان خالی کر دیا اور اللہ نے ہمیں کامیابی سے نواز دیا۔ مگر آج تمہیں کیا ہوا کہ تم لوگوں نے ان مشرکین پر حملہ کیا مگر تم انہیں پسپا نہ کر سکے۔[1] پھر فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں دو چیزوں سے خائف ہوں: یا تو تم مال غنیمت میں خیانت کے مرتکب ہوئے ہو یا پھر تم اس حملہ کے دوران اللہ کے لیے مخلص نہیں تھے۔[2] انہوں نے انہیں صدق دل کے ساتھ طلب شہادت کی ترغیب دلائی اور انہیں اس بات سے مطلع کیا کہ میں ان کے آگے رہوں گا اور اپنی جگہ پر واپس نہیں جاؤں گا الّا یہ کہ اللہ مجھے فتح سے نوازے یا پھر خلعت شہادت عطا فرما دے۔[3] پھر جب مسلمانوں اور رومیوں کی مڈبھیڑ ہوئی تو حضرت عبادہ اپنے گھوڑے سے نیچے اترے اورپیدل ہی دشمن سے لڑنے لگے۔ جب عمیر بن سعد انصاری نے انہیں اس طرح جنگ کرتے دیکھا تو مسلمانوں کو آواز دے کر انہیں ان کے امیر کے اس کردار سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی اقتداء کرنے کی تلقین فرمائی۔ پھر انہوں نے رومیوں سے اس طرح جم کر لڑائی کی کہ انہیں شکست فاش سے دوچار کرتے ہوئے انہیں ان کے قلعہ میں دھکیل دیا۔[4] قیساریہ کی فتح اور سواحل دمشق کی فتح میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی کامیابی کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں اردن کی ولایت سونپ دی۔ یہ ۱۷ھ کا واقعہ ہے۔ [5] ۲۔ دمشق، بعلبک اور بلقاء پر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ولایت: ۱۸ھ میں یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما عمواس کے طاعون میں فوت ہو گئے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کے بھائی کی جگہ دمشق، بعلبک اور بلقاء کا والی مقرر فرما دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کا حضرت معاویہ کے والد اور ان کی والدہ پر گہرا اثر ہوا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے ان کے بیٹے یزید کی وفات پر تعزیت کی تو وہ کہنے لگے: امیر المومنین! آپ نے یزید کی جگہ کس کو والی بنایا؟ تو انہوں نے فرمایا: اس کے بھائی معاویہ کو، یہ سن کر ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہنے لگے: امیر المومنین! آپ نے صلہ رحمی کا حق ادا کر دیا۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد کام کا آغاز کیا تو ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ان کے نام خط لکھا جس میں دوسری باتوں کے علاوہ ایک بات یہ بھی تھی: میرے بیٹے! مہاجرین ہم سے پہلے مسلمان ہو گئے تھے جبکہ ہم نے اسلام قبول کرنے میں تاخیر کر دی جس کی وجہ سے انہیں اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک بلند تر مقام و مرتبہ حاصل ہو گیا۔ جبکہ ہماری تاخیر نے ہمیں اس اعزاز سے محروم کر دیا۔ وہ سابق الاسلام ہونے کی وجہ سے قائد اور سردار بن گئے اور ہم ان کے پیروکار بن کر رہ گئے۔ اب انہوں نے تجھے بڑی اہم ذمہ داری تفویض کی ہے تو ان کی حکم عدولی نہ کرنا۔ اس دوران اگر تم کوئی قابل تحسین کام کرو گے تو اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔[6] اسی طرح ان کی والدہ نے
Flag Counter