Maktaba Wahhabi

227 - 503
امت اسلامیہ نے عمومی طور سے امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد آنے والے خلفاء کے حقوق کی ادائیگی میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا تھا۔ ثالثاً:…دولت امویہ کا دار الحکومت اور شام کے فضائل میں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم: شام مشرقی رومی سلطنت ’’بیزنطیہ‘‘ کا ایک اہم صوبہ تھا، بلکہ بیت المقدس کے قریب ہونے اور اپنی قدیم تاریخ کی وجہ سے اس سلطنت کا بڑا اہم تہذیبی مرکز تھا، عرب قبل از اسلام اسے قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے، اس لیے کہ وہ تہذیبی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا خوشحال، سرسبز و شاداب اور کاروباری مرکز تھا۔ سرزمین شام میں دمشق کو پہلا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جس نے اس علاقہ کی تاریخ میں بڑا اہم کردار ادا کیا، اس کی اسی اہمیت کی وجہ سے رومانی حاکم نے اسے اپنی حکومت کا مرکز قرار دیا، جب اسلام ملک شام اور خاص طور سے دمشق میں داخل ہوا تو معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی ولایت کے طویل دور میں اسے بڑی اہمیت دیتے رہے، انہوں نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ بڑے مضبوط تعلقات قائم کیے۔[1] چونکہ وہ دمشق اور شام میں مقیم یمنی قبائل کی اہمیت سے آگاہ تھے، لہٰذا انہوں نے وہاں کے قبیلے بنو کلب میں شادی کر لی جس سے تعلق رکھنے والی ان کی بیوی نے ان کے بیٹے یزید کو جنم دیا۔ بنو کلب نے نہ صرف ان کے ساتھ بلکہ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں کے ساتھ خوب وفاداری کا ثبوت دیا، اس لیے کہ عرب قبائل ماموں کے رشتے کا بڑا پاس کیا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے نزدیک دامادی کا رشتہ سیاسی معاہدے کی حیثیت رکھتا ہے۔[2] معاویہ رضی اللہ عنہ نے شام اور دمشق میں مقیم یمنی قبائل پر اعتماد کر کے بڑی ذہانت کا ثبوت دیا۔[3] دولت امویہ قائم ہونے کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ دولت اسلامیہ وسعت اختیار کرتے ہوئے شرقاً غرباً بہت دور تک پھیل گئی ہے، لہٰذا انہیں اموی خلافت کے دار الحکومت کے لیے دمشق سے بہتر کوئی جگہ نظر نہ آئی، اس لیے کہ یہ شہر عالم اسلام کے دو حصوں کے درمیان میں واقع تھا، ایک اس کا مشرقی حصہ جو کہ عراق اور فارس پر مشتمل تھا اور دوسرا مغربی حصہ جو کہ مصر اور مغرب پر مشتمل تھا، علاوہ ازیں ان سے مربوط ان کے حامی قبائل نے ان کی تائید کرتے ہوئے ان کے موقف کو تقویت دی اور اس طرح وہ ان کی حکومت کے استحکام کے لیے ان کے دست راست بن گئے، دوسرے الفاظمیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ قبائل ان کی فوجی اور سیاسی قوت کے طور سے سامنے آئے جن پر حکومت اور دولت امویہ کا دار و مدار تھا۔ مزید برآں اس شہر کے باشندوں نے جہاں تک ممکن ہو سکا انہیں اپنی تجربہ کاری اور ادارتی عملہ کی خدمات بھی پیش کیں۔[4] علاوہ ازیں انہیں دمشق میں تجربہ کار انتظامی مشینری دستیاب ہو گئی اور اس طرح انہیں آغاز کار میں ہی انتظامی اور مالی دونوں میدانوں میں کام کرنے والے تجربہ کار ملازمین کی کھیپ میسر آ گئی جس نے ان کے مقاصد کو آگے بڑھانے
Flag Counter