Maktaba Wahhabi

504 - 503
اپنانے پر ان سے بیعت کر لی ان کے بعد دوسرے لوگوں نے بھی ان سے بیعت کر لی۔ جن میں انصار، مہاجرین، لشکروں کے امراء اور عام مسلمان سبھی شامل تھے۔[1] ایک روایت میں آتا ہے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی۔[2] امام ذہبی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے اس عمل کو ان کا افضل ترین عمل قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بہترین اعمال میں ان کے اس عمل کا بھی شمار ہوتا ہے کہ انہوں نے مشاورت کے وقت اپنے آپ کو خلافت کے معاملہ سے الگ کر لیا، اگر آپ کو اس میں کوئی دلچسپی ہوتی تو اسے اپنی ذات کے لیے حاصل کر لیتے، یا اس کے لیے اپنے عم زاد بھائی سعد بن ابووقاص رضی اللہ عنہ کو منتخب کروا لیتے۔[3] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے شوریٰ کی ایک اور صورت سامنے آتی ہے اور وہ ہے: مجلس شوریٰ کے ذریعے خلیفہ کو نامزد کرنا، تاکہ وہ مشورہ عامہ کے بعد اپنے میں سے کسی ایک کی تعیین کریں اور اس کے بعد اس کے لیے بیعت عامہ لی جائے۔[4] ۴۔ بیعت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کا طریقہ انعقاد: خلافت کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت بھی انتخاب کے طریقہ پر ہوئی۔ جب خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ چند ایسے سرکش اور باغی عناصر کے ہاتھوں شہید کر دئیے گئے، جو مختلف شہروں اور مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ جب ان لوگوں نے انہیں اٹھارہ ذوالحجہ ۳۵ ہجری کو جمعہ کے دن ازراہ ظلم و عدوان4 قتل کر ڈالا تو مدینہ منورہ میں موجود اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی اور یہ اس لیے کہ اس وقت کوئی بھی دوسرا شخص ان سے افضل نہیں تھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد نہ تو کسی نے اپنے لیے خلافت کا دعویٰ کیا اور نہ ہی حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے والد محترم رضی اللہ عنہ اس کے حریص تھے اسی لیے آغاز کار میں انہوں نے خلافت کو قبول نہ کیا مگر جب شہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتنہ و فساد میں اضافے اور اس کے مزید بڑھ جانے کے خوف سے ان سے اس منصب کو قبول کرنے کے لیے شدید اصرار کیا تو وہ اس کے لیے آمادہ ہو گئے۔ بعض اہل علم نے ان کے انتخاب کی کیفیت بھی روایت کی ہے۔[5] مثلاً محمد بن الحنفیہ کا بیان ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ محاصرہ کی حالت میں تھے تو میں اس وقت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، اس دوران ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: امیر المومنین کو اب شہید کر دیا جائے گا۔ یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے، میں بھی ان کے ساتھ چل دیا مگر ان کے بیت الخلافت آنے سے قبل ہی انہیں شہید کر دیا گیا تھا۔ علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان کے گھر داخل ہونے کے بعد اس کا دروازہ بند کر دیا، اس دوران لوگ آئے اور دروازہ توڑ کر ان کے پاس جا پہنچے اور کہنے لگے: عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا ہے اور لوگوں کے لیے خلیفہ ضروری ہے، مگر ہم کسی کو آپ سے بڑھ کر اس کا حق دار نہیں سمجھتے۔ اس پر علی رضی اللہ عنہ نے
Flag Counter