Maktaba Wahhabi

310 - 503
۲۔ادارہ جاتی اخراجات: ادارہ کے اخراجات دو قسم کے تھے: ملازموں کی تنخواہیں اور دفتری ضروریات کے اخراجات، دوسری قسم کے اخراجات بالکل معمولی تھے جو کہ روشنی کے انتظامات، کاغذات اور دیگر عام سے سامان پر اٹھتے تھے جو کہ آج کل کے دفتری اخراجات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھے۔[1] لہٰذا ہم اپنی گفتگو کو ملازمین کی تنخواہوں تک محدود رکھیں گے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ملازمین کی تنخواہیں والی صوبہ کے صوابدید پر تھیں وہ جس قدر چاہتا اپنے اور اپنے عمال کے لیے تنخواہیں مقرر کر لیتا۔ جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اس قسم کے اخراجات کے مقابلہ میں بہت زیادہ تھیں اور یہ لامرکزیت کا نتیجہ تھا، مثلاً معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں والیٔ عراق زیاد بن ابیہ کی ماہانہ تنخواہ پچیس ہزار درہم تھی۔[2] ان بھاری بھر کم تنخواہوں کے ساتھ ساتھ بعض لوگوں کے لیے اضافی مراعات بھی مختص تھیں، مثلاً زیاد اپنے ادارے کے ماتحت ایک والی کو اس کی تنخواہ کے علاوہ ایک لاکھ درہم سالانہ ادا کیا کرتا تھا۔[3] یہ عصر اموی کے دوران ملازمین کی تنخواہوں کے چند نمونے ہیں جن سے حکومتی ملازمین کی تنخواہوں اور ان کے دیگر وظائف کا انداہ لگایا جا سکتا ہے، اس لیے کہ اس وقت ہمارے سامنے تفصیلی معلومات موجود نہیں ہیں۔ ا: اموی دور حکومت کے پورے عرصے اور عباسی دورِ حکومت میں مامون کے عہد حکومت تک کاتبوں کی تنخواہ زیادہ سے زیادہ چھتیس صد درہم سالانہ ہوتی تھی، جبکہ اس کی کم از کم حد سات صد بیس درہم سالانہ تھی۔[4] ب: عصر اموی میں پولیس کے سربراہ کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ ایک لاکھ درہم سالانہ تھی۔[5] ج: قاضیوں کو بیت المال سے تنخواہیں ادا کی جاتی تھیں تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکیں۔[6]عصر اموی میں قاضی کی کم از کم تنخواہ بارہ صد درہم سالانہ تھی۔[7] جبکہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ تین ہزار درہم سالانہ تک جا پہنچتی تھی۔[8] ۳۔مصارف زکوٰۃ: اس حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَ الْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہ ِوَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo﴾ (التوبۃ: ۶۰)
Flag Counter