Maktaba Wahhabi

209 - 503
جس نے شاہ روم کے بھرے دربار میں تمہارے منہ پر تھپڑ مارا تھا۔ ہم نے نہ تو تمہیں ضائع کیا اور نہ تمہاری عزت اور خون کو کسی کے لیے مباح قرار دیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے قریشی نے اس کے منہ پر تھپڑرسید کر دیا، پھر وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا، جس نے تجھے رئیس بنایا اس نے تیرا اچھا فیصلہ کیا۔ تم بے مثل حکمران ہو، اپنی چراگاہ کی حفاظت کرنا اور اپنی رعیت کی پاسداری کرنا جانتے ہو، پھر انہوں نے پادری کو اس کے لیے اور اس کے بادشاہ کے لیے کئی تحائف دے کر واپس روانہ کر دیا۔ اس طرح معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی عقل و فکر کا بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے اپنی فوج کے ایک سپاہی کی بے عزتی کا انتقام لے کر اسے خوش کر دیا، مگر پادری کو بھی صرف اس کے کیے کی سزا دی اور اس پر کسی قسم کی زیادتی کا ارتکاب نہ کیا۔ دوسری طرف جب وہ پادری نادر اور قیمتی تحائف کے ساتھ شاہ روم کے پاس پہنچا تو بادشاہ اور اس کے مقربین نے اسے مسلمانوں سے رہائی پر مبارک باد دی اور پھر کہنے لگا، یہ عربوں کا بارعب اور بڑا سمجھ دار حکمران ہے اگر وہ تجھے بھی گرفتار کرنا چاہتا تو اس کا یہ حیلہ بھی کامیاب ہوتا۔[1] یہ واقعہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی فہم و بصیرت، حسن سیاست، رعایا کے امور کو اہمیت دینے اور اس کے ہر فرد کے حقوق اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنے کی اہم دلیل ہے۔ ۴۔ عقل و دانش اور معاملہ فہمی کی قدرت: معاویہ رضی اللہ عنہ بڑی گہری عقل و فکر کے مالک تھے، معاملات کی گہرائی تک رسائی میں خصوصی قدرت رکھتے تھے۔ پیش آمدہ احداث و واقعات سے بھرپور استفادہ کرتے اور اس امر سے بخوبی آگاہ ہوتے کہ ان سے بچاؤ کیسے کرنا ہے اور اگر وہ سر پر آن پڑیں تو ان سے بچ نکلنے میں کیسے کامیاب ہونا ہے۔ آپ شام پر بیس سال تک امیر اور پھر بیس سال تک منصب خلافت پر فائز رہے۔[2] چالیس سال پر محیط اس طویل عرصہ میں وہ فوجی مناصب پر بھی فائز رہے اور شہری ولایت پر بھی۔ جس نے انہیں ملکی سیاست میں بڑا وسیع تجربہ حاصل کرنے اور پیش آمدہ ہر طرح کے حالات و واقعات سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کیا، یہاں تک کہ ان کی حکومت کے آخری بیس سالوں میں ان سے جھگڑا کرنے والا کوئی ایک فرد بھی باقی نہ رہا۔[3] شیخ خضری فرماتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ کو سیاست میں گہرا اثر و نفوذ حاصل تھا، آپ عرب کے ذہن ساز تھے اور حلم و حوصلہ میں کوئی شخص بھی ان کا ہم پلہ نہ تھا۔[4] یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کامیاب سیاست کا دار و مدار قہر وغضب کے وقت ضبط نفس پر قدرت اور مشکلات کا سامنا کرنے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس سے وافر حصہ میسر آیا تھا، اور ان کی یہ سیاست عوام و خواص کے ساتھ ایک جیسی تھی، بادشاہوں کے ساتھ بھی ان کی سیاسی روش وہی تھی جو اپنے ماتحت لوگوں کے ساتھ، اس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
Flag Counter