Maktaba Wahhabi

346 - 503
لکھا: امیرمحترم! ان لوگوں کا کوئی گناہ نہیں ہے، لہٰذا میں یہ کام نہیں کروں گا۔ اس پر امیر نے اس کے نام لکھا: ابن ام حریث! تم اپنی حد سے تجاوز کر رہے ہو، ہماری تلوار واپس کر دو۔ مصعب نے اسی وقت تلوار اس کی طرف پھینک دی اور خود باہر چلا گیا۔[1] یہ واقعہ مصعب کی ایمانی قوت پر دلالت کرتا ہے اور یہ کہ وہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت نہیں کرتے تھے۔[2] مزید برآں مملکت کے دشمنوں کے خلاف سپاہ اسلام کی مدد کرنا،[3] سیاسی مخالفین کو سزائے موت دینا اور قیدیوں کے حوالے سے دیگر ذمہ داریاں ادا کرنا بھی پولیس کے فرائض میں شامل تھا۔ [4] اگرچہ آخر والی ذمہ داریوں کا ظحور زیادہ تر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد کے خلفاء کے عہد میں ہوا۔ رابعًا:…کچھ دیگر قوتیں اور ادارے اور ان کا پولیس کے ساتھ تعلق پولیس کو دولت امویہ میں امن و امان قائم کرنے والی مشینری میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل تھی، جس کی اصل ذمہ داری داخلی امن و امان کی حفاظت کرنا تھا، عصر اموی میں پولیس کے علاوہ کچھ دیگر ادارے بھی موجود تھے جن کی ذمہ داریاں بھی تقریباً پولیس جیسی ہی تھیں۔ مثلاً: ۱۔ شاہی محافظ:… عصر اموی کے آغاز میں لفظ ’’حرس‘‘ ہر اس شخص کے لیے استعمال ہوتا تھا جو کسی بھی جگہ یا شخص کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرتا ہو۔ جبکہ اموی دور حکومت میں اس لفظ کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا تھا جو خلفاء اور گورنروں کی حفاظت پر مامور تھے، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اموی خلفاء نے سب سے پہلے اپنی ذاتی حفاظت کے لیے محافظوں کا تقرر کیا اور یہ اس لیے کہ انہیں خوارج وغیرہ سے حملوں کا خطرہ تھا۔ پھر ان کی خلافت کے ایام میں مختلف شہروں کے والیوں نے بھی پولیس کے ساتھ ساتھ داخلی امن کی قوت کے طور پر محافظین کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ زیاد بن ابیہ نے اپنی ذاتی حفاظت کے لیے پانچ سو افراد کا تقرر کیا اور ان کا سربراہ بنو سعد کے ایک آدمی کو مقرر کیا۔ جسے صاحب الحرس کہا جاتا تھا۔[5] اس مقصد کے لیے اموی خلفاء انتہائی قابل اعتماد لوگوں کا تقرر کیا کرتے تھے۔[6] اور یہ پولیس کے ضمن میں نہیں آتے تھے۔[7] بلکہ یہ دونوں الگ الگ ادارے تھے۔[8] ۲۔ غیر عرب شاہی محافظین:… دولت امویہ کے قیام سے قبل عرب لوگ بعض ایسے غیر عربی الفاظ سے آشنا تھے جن کا اطلاق بصرہ میں بیت المال کی حفاظت کرنے والے لوگوں پر ہوتا تھا۔[9] اور وہ الفاظ تھے:
Flag Counter